سپریم کورٹ:ممبر سندھ اسمبلی کی نااہلی سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

الیکشن کب؟ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ، کل صبح 11 بجے سنایا جائیگا

سپریم کورٹ نے ممبر سندھ اسمبلی معظم علی خان کی نااہلی سے متعلق  درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیاہے۔ 

پیپلز پارٹی کی امیدوار برائے صوبائی اسملبی ندا کهوڑو نے رکن سندھ اسمبلی معظم علی خان کے خلاف سپریم کورٹ میں الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تهی۔ جنوری 2019 میں الیکشن ٹربیونل نے معظم علی خان کے خلاف ندا کهوڑو کی درخواست مسترد کر دی تهی۔

معظم علی خان حلقہ پی ایس 11 لاڑکانہ 2 سے جی ڈی اے کے ٹکٹ پر ممبر سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تهے۔

ندا کھوڑو کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ معظم علی خان کے نام پر 140 ایکڑ زمین ہےمگر انہوں نے کاغذات نامزدگی میں صرف 61 ایکڑ زمین ڈکلئیر کی۔

معظم علی خان کے وکیل نے کہا کہ زمین معظم خان کے نام پر ہے لیکن اس پر کنٹرول ان کے والد منور عباسی کے پاس ہے۔ زمین سے ملنے والا ریونیو ان کے والد کے پاس جاتا ہے۔ یہ زمین خریدی نہیں گئی بلکہ ان کو ورثے میں ملی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے معظم خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس وقت آپ کے اور آپکے بچوں کے نام کتنی زمین ہے؟

معظم خان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ معظم علی خان کے نام 140 ایکڑ زمین ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا آپ نے یہ ساری زمین ڈکلئیر کی؟

اسکے جواب میں معظم خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس میں سے 61 ایکٹر زمین ڈکلیئر کی کیوں کے باقی زمین ان کے والد صاحب کے کنٹرول میں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ زمین تو آپ کے نام پر ہے آپ اسے کهبی بهی بیچ سکتے ہیں۔ زمین آپ کے والد کے کنٹرول میں ہو یا کسی ٹهکیدار کے کنٹرول میں زمیں تو آپ کے ہی نام ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے پوچھا ریونیو ریکارڈ میں آپ کے نام کتنی زمین ہےْ

معظم خان کے وکیل نے کہا کہ ریونیو ریکارڈ میں میرے نام 80 ایکڑ زمین ہے۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو 80 ایکڑ زمین بهی کاغذات نامزدگی میں ڈکلئیر نہیں کی۔ اگر آپ کے دلائل نہ مانے گئے تو یہ کیس آرٹیکل 62 ون ایف میں دیکهنا ہو گا۔

معظم خان کے وکیل نے کہا کہ صفحہ نمبر ٹرپل ون آپ کو دکهانا چاہتا ہوں۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے ازراہ تفنن مسکراتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں ٹرپل ون کا ذکر نہیں کرتے۔

قائم مقام چیف جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد بهی بنچ کا حصہ تهے۔

یہ بھی پڑھیے: مریم نواز کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ


متعلقہ خبریں