کشمیر کی تقسیم کس کا خواب تھا؟کون شریک سفر تھا؟اندرونی کہانی

کشمیر کی تقسیم کس کا خواب تھی؟کون شریک سفر تھا؟سچی کہانی

اسلام آباد: مقبوضہ وادی کشمیر کی تقسیم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یا ان کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ اس کے خالق اسٹریلوی قانون دان اوین ڈکشن (Owen Dixon) تھے جنہیں 1950 میں اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا تھا۔

ممتاز بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق ’ڈکشن پلان‘ کے نام سے تاریخ میں درج ہے کہ جب پاکستان، بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان ثالثی کرانے والے آسٹریلوی قانون دان نے کشمیر کی تقسیم کے حوالے سے ایک باقاعدہ ’پیکج‘ پیش کیا تھا تو اس وقت بھارتی قیادت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

مودی اقدام جموں و کشمیر تک محدود رہے گا؟بھارتی قلمکار نے بتادیا

بھارت کے معروف صحافی اے جی نورانی نے مؤقر بھارتی جریدے ’فرنٹ لائن‘ میں اکتوبر 2002 میں لکھے گئے اپنے تحقیقی مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ ڈکشن پلان کے تحت لداخ اور جنوبی علاقوں کو بھارت کے سپرد کرنا تھا جب کہ مقبوضہ کشمیر پہ پاکستان کا حق ملکیت تسلیم کیا جانا تھا۔

ڈکشن پلان کے ایک سال بعد بھارت کے آنجہانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کابینہ سے بحیثیت وزیر قانون علیحدگی اختیار کرنے والے بی آر امبیدکار نے وادی کشمیر کو باقاعدہ تین حصوں میں تجویز دی تھی۔ ان کے خیال میں کشمیر کا ایک حصہ وہ تھا جو پاکستان کے پاس تھا جب کہ دوسرا وادی کشمیر پر مشتمل تھا اور تیسرا جموں لداخ پر مشتمل ہوتا۔ جس وقت مقبوضہ وادی کشمیر کی تقسیم کی بات کی گئی تو اس وقت بھارت کے بعض حلقوں نے اس پر اعتراض کیا اور مخالفین میں شیخ عبداللہ بھی شامل تھے جو اس وقت ریاست کے سربراہ تھے۔

بھارتی اخبار کے مطابق کرن سنگھ جو کانگریس کے اس وقت سینئر رہنما ہیں اورماضی میں مقبوضہ وادی کشمیر کے گورنر رہے ہیں، نے 1966 میں ایک غیرملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے تو تجویز دی تھی کہ جموں کو کشمیرسے علیحدہ کر کے ہماچل پردیش کے ساتھ ملا دیا جائے جو اس وقت ایک یونین ٹیریٹری تھی تاہم بعد میں انہوں نے اس کو نا پسند بھی کردیا تھا۔

جس وقت یہ تجویز سامنے آئی تھی اس وقت کے وزیر داخلہ جی ایل نندا نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ مقبوضہ وادی کشمیر کی تقسیم کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر: پاکستان نے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی

آنجہانی اندرا گاندھی کابینہ میں وزیردفاع کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکنے والے سابق بھارتی صدر آر وینکٹ رامن تو 1983 میں مقبوضہ وادی کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم دیکھنے کے بڑے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لداخ ایک یونین ٹیرٹری ہے، جموں ایک ریاست ہے اور وادی کشمیر کی ایک علیحدہ شناخت ہے۔ انہوں نے یہ تجویز اپنی تحریر کردہ کتاب ’My Presidential Years ‘ میں بھی درج کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق 1996 میں کمیونسٹ پارٹی انڈیا کے بزرگ سیاستدان اندرجیت گپتا جو وزیرداخلہ بھی تھے، نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی حمایت کی تھی تاہم جب اس حوالے سے ملک میں شدید ردعمل سامنے آیا تو انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ انہیں غلط سمجھا گیا ہے۔

اخبار کے مطابق چند سال قبل جب مقبوضہ وادی کشمیر کی حکومت نے ریاست کی خودمختاری سے متعلق کمیٹی قائم کی تو ملک گیر سطح پر شروع ہونے والی بحث پر آر ایس ایس (انتہا پسند ہندو جماعت) نے بھی وادی چنار کو تین حصوں میں تقسیم کی حمایت کی لیکن اس کے بعد اکتوبر 2000 میں اس وقت کے وزیرداخلہ ایل کے ایڈوانی نے سری نگر میں منعقد ہونے والی سرکاری میٹنگ کے بعد آر ایس ایس کے اس خیال کو یکسر رد کردیا تھا۔

ایل کے ایڈوانی اس وقت واجپائی کابینہ کے رکن تھے اور بابری مسجد کے انہدام میں شریک ملزم بھی ہیں۔

دی ہندو کے مطابق مقبوضہ وادی کشمیر کی دو حصوں میں تقسیم کو اب پارلیمنٹ سے منظوری مل گئی ہے جو اب خیال نہیں حقیقت ہے کیونکہ پشت پر پارلیمنٹ ہے۔

 


متعلقہ خبریں