ہٹلر اور نازی کے پیروکار مودی اور آر ایس ایس

‘دو سالوں میں بھارت سے عیسائیوں اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے ’

نئی دہلی: انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ المعروف ’آر ایس ایس‘ بالکل اسی طرح بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار یا عقیدت مند کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس طرح ایک زمانے میں ’نازیوں‘ کے نزدیک جرمن قوم کے علاوہ کسی دوسری قوم کو زندہ رہنے کے لیے ان حقوق کی قطعی ضرورت نہیں تھی جو جرمنی کے لوگوں کے لیے بنیادی ضرورت تھے۔

تاریخی ثبوت و شواہد اس امر کے غماز ہیں کہ آر ایس ایس اصل میں نازی سوچ کی پیروکار ہے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دنگا فساد کرانے سے لے کر نسل پرستی سمیت ہر قسم کے منفی ہتھکنڈے کو اختیار کرنے میں وہ عار محسوس نہیں کرتی ہے خواہ وہ فوجیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ ہو؟

راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ خود کو دراصل قوم پرست ہندو تنظیم قرار دیتی ہے لیکن متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ اس کی تشکیل ناگپور میں 1925 میں ہوئی تھی اور اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوارتھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بھارت ایک ہندو ملک ہے۔ برطانوی دور حکومت میں اس تنظیم پر ایک مرتبہ اور تقسیم ہند کے بعد اس پر تین مرتبہ عقائد اور حرکات و سکنات کے باعث پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔

بھارت میں رہنے کی شرط:ہندوآنہ نعرہ لگاؤ اور سنت رسولﷺ صاف کرو

1927 کے ناگپور فساد میں اس کا اہم کردار تھا تو 1948 میں مہاتما گاندھی کا قتل اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن ناتھورام ونائک گوڑ نے کیا تھا۔

احمد آباد فساد، تلشیری فساد اور جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھی اسی کے شیطانی ذہن کی اختراع قرار دیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1992 میں جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تو اس کی پشت پربھی یہی تنظیم موجود تھی۔

بھارت کی مختلف حکومتوں کی جانب سے کئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جب کمیشنز بنائے گئے تو انہوں نے بھی اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں آر ایس ایس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔

جن فسادات میں سرکاری طور پر اس تنظیم کو ذمہ دار قرار دیا گیا ان میں احمدآباد فساد پر تیار ہونے والی جگموہن رپورٹ، بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ، تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ، جمشید پور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ، کنیا کماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ اور بھاگلپور فساد پر تیار کی جانے والی رپورٹ شامل ہیں۔

بھارت میں آر ایس ایس کے نظریات اور اس کے خیالات سے اتفاق کرنے والی دیگر تمام تنظیموں کو عمومی طور پر ’سنگھ پریوار‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی دیگر ہم خیال تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی( سنگھ پریوار کی سیاسی جماعت)، ون بندھو پریشد، راشٹریہ سیوکا سمیتی، سیوا بھارتی، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( سنگھ پریوار کا اسٹوڈنٹس ونگ)، ونواسی کلیان آشرم، بھارتیہ مزدور سنگھ اور ودیا بھارتی شامل ہیں۔

بھارت: مسلمان بزرگ پر تشدد، ہجوم نے خنزیر کھلا کر جان بخشی

بھارت کی اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں اور اداروں نے ماضی میں ہونے والے مالیگاؤ بم دھماکہ، حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ، اجمیر بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں سنگھ پریوار کی تنظیموں کو ملوث قرار دیا ہے۔

آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے کارکن نے مہاتما گاندھی کا صرف اس لیے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور مسلمانوں کے غصب کیے جانے والے جائز حقوق نوزائیدہ مملکت کو دینے کے لیے آواز بلند کی تھی۔ مہاتما گاندھی پراس سے قبل بھی چار مرتبہ قاتلانہ حملے کیے گئے تھے جو ناکام رہے تھے۔

مہاتما گاندھی کو پورے بھارت میں عام ’ہندوستانی‘ باپو کے نام سے پکارتا ہے لیکن ’ہندو توا‘ کے پیروکار اس شخص کے لہو سے ہاتھ رنگنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ فخریہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس کے بڑے ’نیتاؤں‘ نے بھی اس گھناؤنے منصوبے اور قتل پر کبھی قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا اگر ’نفسیاتی‘ تجزیہ کیا جائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہٹلر نے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح یہ مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں آباد غیر ہندوؤں کے قتل عام میں مصروف ہے۔

مہاتما گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد جب راشڑیہ سیوک سنگھ کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تو اس کے ’نیتاؤں‘ نے اپنا دامن ’اجلا‘ دکھانے کے لیے نئی سیاسی جماعت جن سنگھ قائم کرلی تھی جو ملک میں ہندو راج چاہتی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسی کے ایجنڈے کوآگے بڑھایا اور مسلمان دشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1947 میں پاکستان نہیں گئے تو مسلمان ہجومی تشددسہیں، اعظم خان

بھارت میں عام تاثر ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اس وقت زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ آر ایس ایس کو ’محفوظ‘ رکھا اور دکھایا جا سکے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے نزدیک قرین قیاس یہی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کی حرکات و سکنات بتاتی ہیں کہ وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بھارت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران شدت اختیار کرنے والی ہجومی تشدد کی کارروائیاں اس کی بھرپور عکاس ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔

ہجومی تشدد والے کسی بھی مسلمان کو تنہا گھیر کر اس سے ہندوآنہ نعرہ لگواتے اور حرام کھلاتے ہیں اور نہ ماننے پر قتل تک کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بزرگوں سے لے کر معصوم بچے تک بن رہے ہیں اور کسی بھی جگہ سے کوئی حکومتی کارروائی عمل میں نہیں آرہی ہے۔

جنونیوں نے ہندوآنہ نعرے لگوائے اور شمس تبریز کی جان لے لی

جس طرح ہٹلرنے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح نریندر مودی نے بطور وزیراعلیٰ گجرات 2002 میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی اپنی سرپرستی میں کرائی تھی۔ اس وقت لاتعداد مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا تھا، زندہ مسلمانوں کو جلایا گیا تھا، مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی اور عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا تھا۔

سانحہ گجرات کے بعد ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں نریندر مودی کو ’ قصائی‘ کے نام سے پکارا گیا تھا اور امریکہ نے ویزہ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانیت کا قاتل بھی قرار دیا تھا۔

آر ایس ایس کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے مئی 2017 میں خبردار کیا تھا کہ راشڑیہ سوائم سیوک سنگھ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں کے بعد کشمیر آر ایس ایس کا اگلا ہدف ہے۔


متعلقہ خبریں