’آصف زرداری گھوم پھر کر خود پر قربان ہو جاتے ہیں‘



وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ عمران خان سچے پکے مسلمان کی طرح عید قربان کے تمام تقاضے پورے کرتے ہیں جبکہ زرداری صاحب گھوم پھر کر اپنے اوپر ہی قربان ہو جاتے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ’صبح سے آگے‘ میں اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچپن سے ہی ان میں قیادت کی صلاحیت موجود تھی تاہم اس کی نوک پلک سنوارنے کا سہرا ان کی والدہ کے سر جاتا ہے۔

خاندانی روایات کو توڑ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میرے دادا ایک سخت گیر، روایتی جاگیردار تھے جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے، جب گاؤں کی کوئی بچی اسکول جانے کے قابل ہوتی تو وہ اس کے والدین کی مالی امداد کر کے بچی کی شادی کرا دیتے تھے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میری والدہ نے دھمکی دی کہ اگر اس گھر میں میری بیٹیوں کو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہ ملی تو انہیں لے کر میکے چلی جاؤں گی اور وہاں پڑھاؤں گی، اس پر انہیں پڑھائی کی اجازت مل گئی۔

طب کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران خوشگوار یادوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہاؤس جاب کے دوران کوئی استاد یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں ان کے بَیج میں آؤں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں وارڈ میں کام نہیں کروں گی بلکہ سیاست کروں گی۔

انہوں نے کہا کہ گائنی وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران پہلے دن جب میں نے سب کام اپنے ہاتھوں سے کیے تو تمام اساتذہ انگشت بہ دندان رہ گئے، جب میں نے سرجری میں پہلا کٹ لگایا تو وہ بالکل سیدھا لگا، اس پر پروفیسر نے حیران ہو کر پوچھا کہ کہیں تمہارا والد قصائی تو نہیں تھا؟

پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات اور سکون ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ 24 گھنٹوں اور ہفتے کے سات دنوں کی ڈیوٹی ہے، کبھی بھی، کہیں بھی، کچھ بھی ہو جائے یا کہیں کچھ چھپ جائے تو خان صاحب فوراً تصدیق کے لیے مجھے بھیجتے ہیں کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں۔

شفا یوسفزئی کے ایک سوال پر انہوں نے بہت دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ رات کے 3 بجے، جبکہ وہ سو رہی تھیں، ایک چینل سے خاتون کی کال آئی کہ مریم نواز اور ان کی ریلی کی 250 گاڑیاں ٹول ٹیکس دیے بغیر گزر گئی ہیں، آپ بتائیں کہ اس پر حکومت کا کیا موقف ہے اور اس سب کے خلاف کیا ایکشن لیا جائے گا؟

کابینہ میٹنگز کے دوران آف دی ریکارڈ دلچسپ لمحات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ فواد چوہدری نے میٹنگ میں کہا کہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف لوگ اکٹھے کر رکھے تھے تو خان صاحب نے جواباً ہنستے ہوئے کہا کہ اتنے لوگ تو داتا دربار کے باہر لنگر لینے کے لیے بھی جمع ہو جاتے ہیں۔

ایک اور واقعہ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری پہلی میٹنگ کے وقت پریزنٹیشن چل رہی تھی اور اندھیرا تھا، میں باہر سے آئی اور تیزی سے اپنی نشست کی جانب بڑھی تو ایک دم سے کسی جانور کی آواز آئی، میں نے ڈر کے فوراً نیچے دیکھا تو شیرو بیٹھا تھا۔ خان صاحب نے کہا کہ اٹس اوکے اس نے تمہیں خوش آمدید کہا ہے۔

وزیراعظم عمران خاں کی حسِ مزاح کے متعلق انہوں نے بتایا کہ جب میں نے پہلی مرتبہ خان صاحب کو قہقہہ لگاتے دیکھا تو حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ کیا آپ ہنستے بھی ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ کابینہ میں ہر معاملے پر فواد چوہدری معصوم سا چہرہ بنا کر انتہائی مزاحیہ بات کرکے خود خاموش ہو جاتے ہیں اور باقی سب دیر تک ہنستے رہتے ہیں۔

فواد چوہدری کے ساتھ چپقلش سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ چھوٹے بھائیوں جیسا ہے اس کے ساتھ خاندانی مراسم بھی ہیں لیکن اطلاعات کی وزارت ان سے لے کر مجھے دی گئی ہے۔ اس پہ ان کا ردعمل ایک فطری عمل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فواد چوہدری اس مائنڈ سیٹ سے نکل نہیں پا رہے کہ اب اطلاعات کی وزارت ان کے پاس نہیں رہی، وہ اب بھی اطلاعات سے متعلق ہر جگہ مشورے دیتے رہتے ہیں لیکن مجھے اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی بھی اچھی بات کرتا ہے تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔

انہوں نے فواد چوہدری کی جانب سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں لائی گئی اصلاحات سے متعلق سوال پر ہنستے ہوئے جواب دیا کہ فواد کہیں خود چاند پر نہ چلا جائے، باقی خیر ہے۔

مولانا فضل الرحمان سے متعلق انہوں نے کہا کہ میں مولانا صاحب کو ہمیشہ کہتی ہوں کہ اسلام پر نگاہ رکھیں اسلام آباد پر نہیں، اگر مجھے موقع ملے تو مولانا صاحب کو چاند پر بھیج دوں۔

موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو بہترین وزیر اطلاعات قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا فرینڈلی ہیں اور عوام کے جذبات کو الفاظ کا روپ دیتے ہیں، عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلانا ان کا فن ہے۔

شیخ رشید احمد کی پیش گوئیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ جب ان کے پاس وزارت اطلاعات کا قلمدان تھا تب وہ ایسی پیش گوئیاں نہیں کرتے تھے کیونکہ وزیر اطلاعات کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ حکومت کی پالیسی ہوتی ہے، اس لیے کوئی بھی لفظ بغیر سوچے سمجھے نہیں بولا جا سکتا۔


متعلقہ خبریں