بھارت کے ریٹائرڈ فوجی افسر نے پاکستان کو منانے کا راز بتادیا


اسلام آباد: بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کی مشترکہ کوشش سے جب مقبوضہ وادی کشمیر کو ملکی آئین کی شق 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا تو جہاں جنونی ہندوؤں کی کچھ تعداد نے جشن منایا اور اپنی باطنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کے انسان  دشمنوں کو کشمیریوں لڑکیوں سے شادیاں کرنے کی نوید سنائی تو وہیں وہاں موجود انسان دوست افراد نے مودی حکومت کے اقدامات کی نہ صرف شدید مذمت کی بلکہ اعلیٰ ترین عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا دیا۔

جنونی ہندوؤں کو کشمیری لڑکیوں سے شادی کا لائسنس مل گیا؟

عدالت عظمیٰ سے بھارت کی موجودہ اندرونی و بیرونی سنگین صورتحال میں حصول انصاف کی توقع لیے پہنچنے والوں میں اب سابق ایئروائس مارشل کپل کاک، میجرجنرل (ر) اشوک مہتا، سابق آئی اے ایس آفیسر ہندل، حیدر طیب جی، امیتابھ پانڈے، گوپال پیلانی اور وزارتِ داخلہ کے گروپ انٹرلوکیوٹرز برائے جموں و کشمیرکے سابق اراکین رادھا کمار سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ میں اس سے قبل بھی متعدد درخواستیں مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالیہ بھارتی حکومت کے اقدامات کے خلاف دائر کی جا چکی ہیں۔

سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی تازہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدارتی عمل کو جموں و کشمیر کی قانون سازاسمبلی سے آرٹیکل 370 (3) کے تحت منظوری کی ضرورت ہے۔

بھارت: کشمیر سے متعلق بھارتی نوٹی فکیشن،21 ویں صدی کالطیفہ

بھارت کے موجودہ صدر رام ناتھ کو وند نے ملکی آئین کی ان چند شقوں کوختم کردیا ہے جن کےباعث مقبوضہ وادی چنار کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا کہ جب بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (راجیہ سبھا اور لوک سبھا) نے اس حوالے سے قرارداد منظورکی۔

بھارتی ایئرفورس کے سابق ائیر وائس مارشل کپل کاک نے اس صورتحال پر کہا کہ کشمیر نے بھارت کو محض تین محکموں کی سپرداری دی تھی اور یہ بھارت میں ضم نہیں ہوا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کپل کاک نے موجودہ بھارتی حکومت کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مودی حکومت نے کشمیر کے ٹکڑے کردیے ہیں۔

انہوں نے اس ضمن میں واضح طور پر کہا کہ کشمیر کے ساتھ شاید یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ وہ مسلم اکثریتی ریاست ہے۔

بھارتی ایئر فورس کے ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل نے مؤقف اپنایا کہ مودی حکومت نے بربریت دکھا کر کشمیر کی خصوصی حیثیت پاؤں تلے روند دی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ناپاک عزائم کے ذریعے کشمیر کی روایات اور نظریات کو بھی کچلنے کی کوشش کی ہے۔

کپل کاک کی طرح مقبوضہ وادی کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی موجودہ بھارتی حکومت کے اقدام کو اس سے قبل اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ موجودہ فیصلے کے انتہائی دور رس اور خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

عمر عبداللہ کی طرح مقبوضہ وادی چنار کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی اپنی نظر بندی کے دوران مودی حکومت کے اقدام کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا تھا۔

مودی اقدام جموں و کشمیر تک محدود رہے گا؟بھارتی قلمکار نے بتادیا

بھارت کے ممتاز قانون ساز غلام نبی آزاد نے تو مقبوضہ وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کہا تھا کہ بی جے پی نے شق 370 ختم کر کے ملکی آئین کے ساتھ ہی جمہوریت کا بھی قتل کردیا ہے۔

بھارتی فضائیہ کے سابق ائیر وائس مارشل کپل کاک نے اس سے قبل بھی بھارتی سرکار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو عمران خان کے جذبہ خیر سگالی کی تعریف کرنی چاہئیے کہ انہوں نے بنا کسی دباؤ کے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا۔

انہوں نے اس ضمن میں یاد دہانی کرائی تھی کہ پاکستان نے 1999 میں بھی بھارتی جہاز گرایا تھا لیکن ایئرفورس کے پائلٹ کو واپس کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا دونوں مواقع پر پاکستان پہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔

کپل کاک نے متنبیہ کیا تھا کہ جنگی جنون پیدا کرنا بذات خود عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے لیکن افسوسناک امر ہے کہ بھارت میں اس کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بھارتی ذرائع ابلاغ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا تھا کہ اس نے گزشتہ پانچ سال کے دوران جنگی جنون کو پروان چڑھانا سیکھا ہے۔

’پاکستان کو ڈرا کر پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا لیکن مذاکرات سے منانا ممکن‘

بھارتی ایئرفورس کے سابق ایئر وائس مارشل نے بھارت کی انتہا پسند حنونی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اسے موجودہ رویہ ترک کے بات چیت کا راستہ اپنانا ہوگا کیونکہ پاکستان کو ڈرا کر پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے لیکن مذاکرات سے منانا ممکن ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ماضی میں متعدد مرتبہ پارلیمنٹ کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کو مسترد کیا ہے اور منظور کردہ قوانین کو کالعدم بھی قرار دیا ہے لیکن بابری مسجد سمیت متعدد ایسے مقدمات بھی ہیں جس میں ’بوجوہ‘ سالوں گزرنے کے وہ کوئی فیصلہ نہں کرسکی ہے۔

بھارت: کشمیر سے متعلق صدارتی حکمنامہ سپریم کورٹ میں چیلنج

کپل کاک اور اشوک مہتا سے قبل بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیرسے متعلق اٹھائے گئے اقدام کو سپریم کورٹ میں سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے چیلنج کیا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیشنل کانفرنس کے ایم پی اکبر لون اور حسنین مسعودی کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جموں کشمیر کو بھارتی دستور کے تحت ایک خاص آئینی حیثیت حاصل ہے جس کے خاتمے کا نئی دہلی میں مودی حکومت کا حالیہ فیصلہ اس لیے غیر آئینی ہے اور فوراً منسوخ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے لیے مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بجائے یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا ہے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر

بھارت کی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں یہ مؤقف سامنے آیا تھا کہ چونکہ ریاست جموں کشمیر کی علاقائی اسمبلی معطل ہے اور علاقے میں براہ راست صدارتی حکمرانی کا نظام رائج ہے اس لیے علاقائی اسمبلی کے اختیارات بھی مرکزی پارلیمان کو منتقل ہو چکے ہیں جس نے باقاعدہ قانون سازی کر کے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے ہی حوالے سے کانگریسی رہنما تحسین پونے والا نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ کشمیر میں نافذ کرفیو، ٹیلی فون، موبائل و انٹرنیٹ کی معطلی اور ٹی وی چینلز کی بندش ختم کی جائے۔

درخواست گزار نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ کشمیر کی سیاسی قیادت کو رہا کیا جائے اور بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کی شق 370 کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

جسٹس ارون مشرا کی قیادت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ صورتحال یکایک ٹھیک نہیں ہو سکتی ہے اور کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کیا ہورہا ہے؟ اس لیے حکومت کو اپنا کام کرنے کا موقع دینا ہوگا کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سپریم کورٹ نے مقبوضہ وادی کشمیر میں حکومتی پابندیوں کے خلاف دائر درخواست پر فوری حکمنامہ جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی تھی۔

عالمی اور بھارتی سیاسی مبصرین کے مطابق مقبوضہ وادی چنار کے حوالے سے تمام سنجیدہ نگاہیں بھارت کی سپریم کورٹ پہ مرکوز ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے؟ دیکھنا یہ کہ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جنونیوں کی جانب سے کی جانے والی انتہا پسندانہ قانون سازی کو مسترد کرکے وہ نئے قانون کو کالعدم قرار دیتی ہے اور یا پھر ’مصلحت‘ کا شکار ہوجاتی ہے؟


متعلقہ خبریں