بھارت میں آزادانہ صحافت سنگین خطرے میں ۔۔۔

فوٹو: فائل


نام نہاد سیکیولر بھارت میں اقلیتیں کیا صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں، صحافت کے لیے ’’آزاد‘‘ ماحول کا بھارتی ڈھونگ امریکی چینل وائس آف امریکہ نے کھول دیا ہے۔ 

مقبوضہ کشمیر میں تو بلیک آؤٹ ہے ہی بھارتی صحافیوں کو بھی اجازت نہیں کہ وہ حکومت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکیں۔

بھارت میں آزادانہ صحافت سنگین خطرے میں ہے۔ حق کی آواز عوام تک پہنچانے میں بھارتی صحافیوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

امریکی چینل وائس آف امریکہ نے بھارت کی نام نہاد صحافت کا پول پوری دنیا کے سامنے کھول دیا۔ اس وقت بھارتی صحافیوں کو شدید سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےجو مودی سرکار کہتی ہے وہی بھارتی میڈیا دکھانے پر مجبور ہے۔

ہندوستانی حکومت نے صحافیوں کے لیے بھی آزاد صحافت کے دروازے بند کر دیئے۔ اگرچہ بھارتی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہےلیکن مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حثیت ختم ہونے کے بعد بھارتی صحافیوں پر تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے مودی سرکار آخری حد تک جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ سب سے زیادہ مشکل کا سامنا خواتین صحافیوں کو ہیں جن کو خاموش کراونے کے لیے دوسرے مکروہ طریقے اپنائے جارے ہیں۔

بھارت کی معروف صحافی رانا ایوب کے مطابق نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں سب سے بڑا مسلہ جس پر لوگ مصیبت میں مبتلا ہوسکتے ہیں وہ مسلمان ہونا ہے۔

مودی سرکار میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا رہی ہے۔مسلمانوں کو جے شری رام نہ کہنے پہ آگ لگائی جارہی ہے۔

رانا ایوب کے مطابق مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاون کرکے آپ حقیقت نہیں چھپا سکتے نہ ہی کشمیری عوام کے لیے کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: منصوبہ بندی کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے،مشعال ملک


متعلقہ خبریں