وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کے بعد۔۔


صبح 10 بجے لاہور سے راولپنڈی آنے والی ٹرین پر کچھ مہمان آنے والے تھے تو  راولپنڈی ریلوے سٹیشن جانے کااتفاق ہوا۔ ٹرین نے ڈھائی بجے پہنچنا تھا۔ تین بجے تک ٹرین نہ پہنچی تو ریلوے کے ایک افسر سے ٹرین کی آمد کا وقت پوچھا تو معلوم ہوا کہ ٹرین کچھ ہی دیر میں پلیٹ فارم نمبر ایک پر پپنچے گی۔

تین بجکر 15 منٹ پر ٹرین پہنچی تو متعلقہ ڈبے تک پہنچ کر مہمانوں کو لینے کے لیے چڑھا اور نظر دوڑائی ۔مگر کسی بھی سیٹ پر مہمان نظر نہ آئے تو تشویش ہوئی اور دیگر ڈبوں کی طرف بھی دوڑ کر چیک کیا۔ فون ملایا تو نمبر بند ملنے کا اشارہ آیا۔ سو ایک ایس ایم ایس بھیجا اور گیٹ پر کھڑے ٹکٹ چیکر سے ٹرین کے بارے میں دریافت کیا۔ جواب ملا کہ یہ وہ ٹرین نہیں جس کی آپ کو تلاش ہے ۔

یہ ٹرین لاہور سے صبح سات بجے چلی تھی جو انجن فیل ہونے کے باعث ساڑھے تین گھنٹے سے زائد کی تاخیر کے بعد راولپنڈی پہنچی ہے۔۔ اور جس ٹرین کا مجھے انتظار ہے وہ دو گھنٹوں کی تاخیر سے پلیٹ فارم نمبر چار پر آئےگی۔

انتظار مجبوری تھی اس لیے سٹیشن پر رکھے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھنے لگا تو اس پر ایک لاوارث بیگ رکھا ہوا تھا۔ بیگ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ ساتھ والے بنچ پر لیٹے ہوئے ایک صاحب کا ہے جو ایک تیر سے دو شکار کھیلتے ہوئے ایک پر خود اور ایک پر اپنے بیگ کو لٹائے ہوئے تھے۔

ان صاحب کو بیگ ہٹانے کا کہا توبیگ کا مالک نوجوان منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا جیسے میں نے بیگ اٹھانے کا نہیں اس بیگ کی ملکیت کا دعوی کر دیا ہو۔ خیر جگہ ملی تو ٹرین کا انتظار کرنے کے لیے بنچ پر بیٹھ گیا۔

آس پاس بنی کینٹینوں پر گرم کھانوں اور چائے کی خوشبو نے سوئی ہوئی بھوک کو جیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو۔ بنچ سے اٹھا اور پکوڑوں کے اسٹال کی طرف چل پڑاجہاں گرم کرم پکوڑے نکال کر اسٹال والے نے انہیں ایک بڑی ٹرے میں رکھ دیا۔

پکوڑوں کی یہ ٹرے ہاتھوں ہاتھ ختم ہوتے دیکھ کر لگا کہ اسٹال والے کا کام اس کے معیار کے مطابق ہی ہے تبھی تو مسافروں نے اس کے پکوڑے دھڑا دھڑ خرید لیے۔

یہ منظر دیکھ کر  میرےاپنے قدم رک گئے اور دور سے ہی اسے دیکھتا رہا کہ اس رفتار سے جاؤنگا کہ اگلی ٹرے نکلنے تک میں اس کے اسٹال تک پہنچ جاؤں مگر نظریں اسی اسٹال پر ہی جمی ہوئی تھی جیسے کسی کھانا پکانے والے والے چینل پر خواتین اپنی پسند کے کوکنگ شو پر نظر رکھتی ہیں کہ کوئی ترکیب نظروں سے اوجھل نہ  ہو جائے۔

پکوڑوں کا مصالحہ تیار تھا تیل بھی گرم نظر آرہا تھا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ بس بیسن ڈال کر گھولنا باقی رہ گیا ہے اوراسٹال والے نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک کنستر اٹھایا جس میں موبل آئل نما کوئی چیز اسی کڑاہی میں انڈیل دی جس تیل پہلے سے گرم ہو رہا تھا اور پکوڑوں کے لیے کاٹی ہوئی پیاز آلو اور دیگر اشیا میں پرانے پکوڑوں کا بچا ہوا چورا اور بیسن ڈالا جس کا رنگ بیسنی ہونے کے بچائے سفید تھا۔

یہ دیکھ کر میرے قدم رکے اور میں نے فورا راستہ بدل لیا اور اپنی بھوک کو کوستا ہوا چائے کے اسٹال پر چلا گیا اور سوچا کہ چائے پر ہی اکتفا کیا جائے مگر یہاں رکھے پلاسٹک کے کپوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ صحت کیوں خراب کروں ؟ چائے پیونگا تو کانچ کے رکھے ہوئے ان کپوں میں جنہیں یہ بار بار کبھی ایک بالٹی سے نکال کر دوسری میں اور پھر باہر نکال کر سوکھنے کے لیے رکھا جا رہا تھا۔

سو میں نے اسٹال مالک سے کہا کہ “بھائی مجھے کڑک چائے دینا مگر پلاسٹک کے نہیں اس کانچ کے کپ میں دینا ۔ یہ سننا تھا کہ چائے والے نے وہی پھرتی دکھائی جو ایک افسر کو خوش کرنے کے لیے ایک ملازم اپنی تمام تر مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی عملی مظاہرہ کرتا ہے۔

مگر اس کی  یہ  مہارت دیکھ کر میری حیرانگی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوا جب اس نے چائے کی چھاننی میں رکھی ہوئی پرانی پتی اس چائے کے برتن میں دودھ اور پانی میں دوبارہ ڈال کر اسے خوب ہلانا شروع کر دیا۔ میں نے اس صاحب کی حرکت کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ بھائی کڑک چائے ایسی ہی ہوتی ہے۔

اپنے ارمانوں پر پتھر رکھ کر کبھی ایک اور کبھی دوسرے پر اچھے کھانے کی تلاش میں پورا سٹیشن گھوما ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں لوگوں کا رش لگا ہوا تھا اور اپنی اپنی باری پر پلیٹ اٹھائے اس اسٹال سے نکل کر کھانا کھانے کے لیے اپنی اپنی جگہ بیٹھ رہے تھے۔

میں بھی تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے اس اسٹال تک پہنچا مگر دیکھتا کیا ہوں کہ اسٹال والا بڑے سے سٹیل کے ایک دیگچے کے اور پلاسٹک کی بہت ساری پلیٹیں رکھ کر ان پر پہلے چاول ڈال رہا تھا اور پھر پہلے رنگ دار کھولتا ہوا کوئی پانی ڈالتا تھا ۔

چنوں کے کچھ دانے ڈال کر اس رش کو بھگتا رہا ہے اور ہماری بھولی عوام بھی ایسے اپنا نمبر پہلے لگوانے کے چکر میں رش کو چیرتے ہوئے اس سٹال مالک کے پاس پہنچ کر اس چاول اور چنے نما چیز کو کھانے کے لیے بے قرار نظر آرہی تھی۔

یہاں اس بات کا اندازہ ہوا کہ بھوک برداشت نہ ہو اور اس کی قیمت کتنی ہی کیوں نا چکانی پڑے۔ انسان اس پاپی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کچھ بھی کھا لیتا ہےمگر میرا فی الحال اس قسم کے سٹنٹ کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

لہذا میں بھی اس اسٹال سے کھانا کھانے کا ارادہ ترک کر کے دیگر کچھ بچے کچھے اسٹالز کی طرف چل پڑا۔ ایک سٹال پر ایک سٹال مالک پسینے سے شرابور پلاسٹک کی ایک بڑی تھیلی سے میٹھی سونف نکال کر چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بھر رہا تھا۔ ہاتھوں سے نکلنے والے پسینے سے میٹھی سونف کا رنگ اس کے ہاتھوں پر لگ رہا تھا۔ مگر اس جوان کی محنت کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ چاہے رنگ اترے ، اس کا پسینہ ضائع ہو کر ان تھیلیوں میں گر جائے یہ نہیں رکنے والا جب تک اس کی یہ تمام چھوٹی چھوٹی تھیلیاں سونف سے بھر نہ  جائیں۔

 

میں وقت ضائع کیے بغیر اگلے اسٹالز کا رخ کرنے لگا۔ کھانے کی یہ حالت دیکھ کر بھوک پہلے ہی مرچکی تھی۔ اسی دوران ایک اسٹال نظر آیا جہاں اسٹال کا ایک مالک پکوڑے لینے کے لیے آنے والوں کو ایک کاغذ میں پکوڑے رکھ کر دے رہا تھا۔

اس نے چائے نہیں رکھی تھی ، کچھ پوریاں اور حلوہ بھی تھا جو خریداری کرنے والوں کا اسی خاکی کاغذ میں رکھ کر دے رہا تھا۔ میں نے پہلے اس سٹال کا جائزہ لیا اور اسکے پاس چلا گیا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی ” تمام اسٹالز والے پولی تھین بیگ اور پلاسٹک میں کھانے دیتے ہیں۔ تم کیوں نہیں دیتے؟

اور اتنی صفائی ستھرائی کے باوجود تمہارے اسٹال پر رش بھی نہِیں ہے؟ ” اس نے جواب دیا کہ “حکومت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اسی لیے یہاں آنے والوں کو اس خاکی کاغذ پر کھانے کی چیزیں دے رہا ہوں اور رش اس لیے نہیں ہے کیونکہ لوگ اسرار کرتے ہیں پلاسٹک بیگ میں یہ کھانا ڈالنے کے لیے مگر میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ ان کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

مگر لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور کئی گاہک اپنا کھانا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔” میں نے الطاف نامی اس سٹال کے مالک سے کہا کہ ایسے تو تمہیں کاروبار میں نقصان ہو جائے گا تو کہنے لگا کہ نفع نقصان تو اللہ کے ہاتھ میں اسی لیے کوشش ہوتی ہے کہ یہاں آنے والوں کو صاف ستھرا کھلاوں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہوں۔

میں اس کی باتوں سے متاثر تو ہوا کہ اتنی دیر جس ٹرین کا مجھے انتظار تھا وہ آگئی اور میں ٹرین پر آنے والے اپنے مہمانوں کا لیکر اسٹیشن سے چلا گیا۔

بات یہی ختم نہیں ہوئی جناب  اب زرا آگے بھی سنیئے اور سر دھنیے کیوں کہ آپ سے میں ایک ہی دن کے تجربات شیئر کررہا ہوں جن کا سامنا میں نے حیرانی اور پریشانی میں کیا۔

گھرجاتے ہوئے خیال آیا کہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ رہ جائے اس لیے کیوں نہ ان سے اجازت لیکر پاس ہی ایک کیش اینڈ کیری پر رکا۔ جلدی جلدی چینی،پتی،چاول اور کچھ دیگر اشیاء خور و نوش کے پیکٹ اٹھائے اور کاؤنٹر کی طرف آیا۔ بل بنا تو اس میں ستر روپے اضافی دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔

سبب پوچھا تو کیش اینڈ کیری کے سیلز مین نے کہا کہ سر یہ کپڑے کے بیگ کے ہیں جو زبردستی اس کیش اینڈ کیری کی جانب سے ہر کسٹمر کو دیا جا رہا ہے۔

مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا کہ بھائی چینی،پتی،تیل،دالیں،پانی سب کچھ تو پلاسٹک میں ہے اور اس پر حکومت کا کوئی عمدرآمد نہیں ہوا۔ تو پھر ستر روپے اضافی لینے کے لیے اس فیصلے پر عمدرآمد کیسا؟ تو جواب ملا کہ حکام نے آکریہ سامان پلاسٹک کے تھیلوں میں دینے سے منع کیا ہے۔

پیکنگ کے لیے اگر کوئی ہدایات آئیں تو تب دیکھیں  گے۔ مجھے خیال آیا کہ میری گاڑی میں ایک کپڑے کا تھیلا رکھا ہے میں نے اپنا سامان امانتا رکھنے کا کہہ کر اپنی گاڑی کا رخ کیا اور کپڑے کا تھیلا نکال کر لے آیا۔

جب تھیلا لایا تو کیش اینڈ کیری کا مینیجر مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے میں نے اس کے چلتے ہوئے موٹرسائیکل سے چابی نکال لی ہو۔ خیر میں کسی پر توجہ دیئے بغیر اسٹور سے نکلا اور مہمانوں کو مزید انتظار کرائے بغیر گاڑی میں بیٹھا اور گھر چلا گیا۔

اس تجربے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ حکومت نے 14 اگست کو پولی تھین بیگز پر پابندی کا جو اعلان کیا اس پر عمدرآمد تو دور کی بات۔ پبلک مقامات پر یا تو عوام اس اعلان سے بے خبر ہیں یا اس معاملے پر کوئی دھیان دینے کو شاید کوئی تیارہی نہیں۔

نفع کمانے کے لالچ میں تو ہم پہلے ہی صحت کے اصولوں کو پیچھے چھوڑ کر خوب ملاوٹ سے بھری اشیا عوام کو کھلا رہے ہیں۔ اس پر حکومت کی جانب سے جاری ان احکامات کی اہمیت کیوں ہو جب حکام خود ہی اپنے فیصلوں پو عمدرآمد کرانے میں کنجوسی سے کام لیں اور جہاں بات ہو نفع کی وہاں کسی نہ کسی طریقے سے ہم اصولوں کی کوئی نا کوئی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔

خیر اس معاملے پر وزارت ماحولیاتی تبدیلی، ماحولیات، میٹروپولیٹن کارپوریشن اور اسلام آباد انتظامیہ سے پوچھا تو جواب ملا کہ پورے شہر میں چاروں محکموں کی چار ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔

اس لیے صبر سے کام کیجیئے اور اپنا اپنا کام کیجئے۔ تاجروں سے پوچھا تو آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ سٹورز پر آنے والوں کو چیزیں ہاتھ میں کیسے پکڑائیں؟

حکومتی ٹیکسز پر پہلے ہی تاجروں اور حکومت کے درمیان سرد جنگ ہوتی رہتی ہے اس پر اگر ان تھیلوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا تو لڑائی جھگڑے معمول بن جائینگے۔

حکومت کو چاہیے تھا کہ یہ پولی تھین بیگ ختم کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تاجروں کے نمائندوں سے کم از کم مشاورت ہی کر لیتی تاکہ ان تھیلوں کے متبادل کا کم از کم کوئی بندوبست تو ہو جاتا۔

 

ایسی صورتحال میں ایک اور مشاہدہ سامنے آیا کہ اداروں میں رابطے کا فقدان بھی  کسی مہم کی ناکامی کا ایک بڑا سبب بن کر سامنے آتا ہے۔

میں نے ملک کے ایک بڑے ریلوے اسٹیشن کی مثال آپ کے سامنے رکھی ۔ متعلقہ وزارت اور حکام کی جانب سے نگرانی کھانے پینے کی اشیاء میں گندگی تو پہلے ہی تھی۔ اب پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کی اضافی کہانی پر کوئی کیا توجہ دے جو کابینہ کا فیصلہ تو تھا مگر متعلقہ وزارت کی ذمہ داری سمجھ کر کیوں کوئی اور وزارت اس پر دھیان دے؟ کیونکہ ابھی تو فی الحال عوام اور کئی تاجر بھی تھیلے کے سوال پر یہی جواب دیتے ہیں۔

” بھائی کونسا تھیلا؟‘ ہم تو یہ تھیلے خرید کر سودا سلف لینے کے لیے آنے والوں کو اشیاء ان پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے ان کے متبادل کوئی تھیلے دیئے تو ہمیں نہیں ملے۔ ”

ان سب باتوں سے ہٹ کر ویسے اب ہمیں بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ سب ایسے ہی چلتا رہیگا یا پھر ہمیں بھی اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس لیے کسی اور پر بھروسہ کرنے کے لیے بجائے ہمیں اپنے کپڑے کے تھیلے نکالنے ہونگے۔۔ تاکہ اشیاء کی خریداری سے پہلے ہی یہ احساس دلایا جا سکے کہ اگر ایک خریدار کپڑے کا تھیلہ لیکر آیا ہے تو اسے پلاسٹک کے تھیلے میں اشیاء دینے کے بجائے حکومتی اعلان کے مطابق کاغذ کا منظور شدہ میٹریل میں اشیاء فراہم کیں جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پانی والی پلاسٹک بوتلوں پر پابندی نہیں، ڈپٹی کمشنر


متعلقہ خبریں