آزادی رائے کا ڈھنڈورا پیٹنے والا بھارت ڈیجیٹل میڈیا پر قدغنیں لگانے لگا

سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کیے جانے لگا

جمہویت اور آزادی اظہار رائے کے علمبردار خود ہی آزادی رائے پر قدغنیں لگانے لگے۔ جب کہ دنیا بھر میں ڈیجٹیل میڈیا کو آزادانہ رائے کے اظہار کرنے کا ذریعہ مانا جاتا ہے ٹوئیٹر اور فیس بک پر موجود جموں و کشمیر کے بارے میں کسی طرح کی بھی حمایت کرنے والے والے بیانات کو ان کے صفحات سے ہٹایا جارہا ہے۔

ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے دنیا بھر کو جموں و کشمیر میں بھارتی بربریت کے بارے میں معلومات دی جارہی تھیں جس پر پاکستان کی عوام میں شدیدبے چینی پائی جاتی ہے۔

21ویں صدی میں بلاشبہ انٹرنیٹ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال سے ہم اپنے خیالات کا اظہار ایک بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔

دنیا بھر سمیت کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹویٹرکے 1.62 ملین جبکہ 31 ملین فیس بک کو استعمال کررہے ہیں۔

جموں و کشمیر کے حالات و واقعات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے والے افراد کے اکاونٹس کو معطل کردیا گیا ہے۔ بھارت کے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ٹوئیٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کے استعمال پرقبضہ کرنے کے لئے ہندوستانی قانون لاگو کو کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹویئٹر اور فیس بک دونوں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہیں جسکی وجہ سے پاکستان کی عوام کی طرف سے جو بھی سوشل میڈیا پرجموں و کشمیر کے بارے میں مواد پیش کیا جارہا ہے اس کو معطل کیا جارہا ہے جس پر پاکستانی عوام شدید اذیت کا شکار ہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آزادی رائے کی حمایت کرنے والے ممالک کس طرح اپنے ملک کا قانون لاگو کرسکتے ہیں۔

انٹرنیٹ کے استعمال سے ہم اپنے خیالات کا اظہار ایک بہتر انداز میں کرسکتے ہیں اور اگر اس کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ معلومات کا ایک مفید ذریعہ ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ کسی بھی ڈیجیٹل دنیا میں استعمال ہونے والے منفی پروپیگنڈے کو روکے جانے کے لئے مناسب اقدامات ہونے چاہیں۔ٹیک کمپنیاں ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی کارروائیوں سے علاقوں کو تقسیم کردیا ہے تاکہ علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں کو آسانی سے پایا جاسکے لیکن اس تقسیم سے پاکستان کی عوام میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

عوام کا کہنا تھا کہ ٹوئیٹر اور فیس بک کا بھارت سے کنٹرول کیا جانا افسوس ناک ہے جبکے ڈیجیٹل دنیا میں ٹویٹر اور فیس بک کے بانی ہمیشہ سے آزادی رائے اور قوانین کی پاسداری کا اعلان کرتے آئے ہیں۔

جموں و کشمیر کے لئے رائے دینے والے ٹوئیٹر اور فیس بک کے یوزر کے اکاؤنٹس معطل کئے جا رہے ہیں جس پر پاکستانی عوام  کی طرف سےسخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہناتھا کہ جموں و کشمیر کے حالات کے بارے میں آگاہی کس طرح دی جائے اور کیسے ممکن ہے کہ دنیا کے سامنے بھارت کا گھناؤنا چہرہ دکھایا جائے کیوں کہ وہ کشمیری عوام کے بارے میں آگاہی کے لئے جو بھی خبر دے رہے ہیں ان کو صفحات سے ہٹایا جا رہا ہے جو کہ ظلم کے مترادف ہے۔

بھارت کے قوانین پر اگر نظر ڈالی جائے توایسی کوئی بھی رائے ان بلاگز پر نہیں دی جاسکتی جو کہ بھارت کے قوانین کے منافی ہو یا ریاست کی فیصلوں کو چیلنج کرتی ہو۔جب کہ ٹیک جین کی پالیسیاں بھارت کی قوانین کے منافی ہیں کیونکہ ہر انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔

بھارت کی طرف سے بہیمانہ اقدام کی بہترین مثال اس وقت منظر عام پر آئی جب برھان وانی کی رائے کو ٹویئٹر اور فیس بک سے ہٹا کر اکاونٹس کو معطل کردیا گیا تھا یہ اور بات ہے کہ انٹرنیٹ کے قوانین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ڈیجیٹل دنیا میں اپنے قوانین لاگو کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کرنے کی سفارش


متعلقہ خبریں