پاکستانی کنو کی برآمدات سالانہ ہدف سے آگے جانے کا امکان

پاکستانی کنو کی برآمدات سالانہ ہدف سے آگے جانے کا امکان | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: پاکستانی کنو کی برآمدات رواں برس اپنے سالانہ ہدف سے زائد ہونے کا امکان واضح ہو گیا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق یہ امکان انڈونیشیا اور روس کی جانب سے پاکستانی کنو کی درآمدات بڑھانے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔

دسمبر میں شروع ہونے والے کنو کے برآمدی سیزن اور روس و انڈونیشیا کی شمولیت کے بعد پاکستانی برآمدکنندگان کو توقع ہے کہ وہ سالانہ ہدف سے آگے چلے جائیں گے۔ انڈونیشیا نے رواں برس پاکستانی کنو کی درآمد پر عائد کوٹہ کی پابندی ہٹا دی تھی۔

انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹی کلچر سائنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امان اللہ ملک  کے مطابق پاکستان سٹرس رکھنے والے (کھٹے) پھل پیدا کرنے والا تیرہواں بڑا ملک ہے۔

پاکستان تقریبا دو اعشاریہ چار ملین ٹن ترش پھل سالانہ پیدا کرتا ہے، ان میں سے تقریبا 80 فیصد حصہ صرف کنو کا ہوتا ہے۔ پنجاب کل پیداوار کا ساٹھ فیصد کنو مہیا کرتا ہے جس کا اٹھانوے فیصد صرف ایک ضلع سرگودھا میں پیدا ہوتا ہے۔

کنو کو پراسیس کرنے کی صنعت بھی سرگودھا ہی میں قائم ہے۔

پاکستان ایکسپورٹرز، امپورٹرز اور مرچنٹ ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کے سرپرست وحید احمد کا کہنا ہے کہ تین فروری تک پاکستان نے ستائیس ممالک کو ایک لاکھ بیالیس ہزار ایک سو ستاون میٹرک ٹن کنو برآمد کئے ہیں۔ گزشتہ برس اسی عرصے میں ایک لاکھ چھتیس ہزار سات سو انیس میٹرک ٹن کنو برآمد کئے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے روس کو برآمد کئے جانے والے کنو کی مقدار گزشتہ برس کے پچاس ہزار ایک سو ستاون میٹرک ٹن سے بڑھ کر چون ہزار تین سو پچانوے میٹرک ٹن ہو گئی ہے۔

پی ایف وی اے رہنما کے مطابق انڈونیشیا برآمد کئے جانے والے کنو کی مقدار بھی گزشتہ برس کے تیرہ ہزار تین سو دو میٹرک ٹن سے بڑھ کر چوبیس ہزار ایک سو سڑسٹھ میٹرک ٹن ہو گئی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹی کلچر سائنس کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ کنو کی برآمد کا وقت اپریل میں ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ برس دو لاکھ اسی ہزار میٹرک ٹن کنو برآمد کیا تھا جو دوہزار پندرہ سولہ میں برآمد کئے گئے تین لاکھ پچیس ہزار میٹرک ٹن سے خاصا کم تھا۔ دو ہزار چودہ، پندرہ کے مالی سال میں پاکستانی کنو کی برآمد تین لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن رہی تھی۔

رواں برس پاکستانی کنو کے لئے برآمدات کا ہدف دو لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا۔

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق پھل اتارنے کے وقت سے قبل اور اس کے بعد کے عرصے میں تقریبا چالیس فیصد پھل ضائع ہو جاتے ہیں۔ بیماریوں کی روک تھام نہ ہونا، غیرمفید موسمی حالات، پھل اتارنے میں تاخیر، سڑکوں اور کولڈ اسٹوریج سہولیات کی کمی جیسے مسائل اس ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔

ڈاکٹر امان اللہ ملک کے مطابق نقد فصل کہلانے والے کنو پاکستان میں ریسرچ اور ترقی کے شعبوں میں مطلوب توجہ نہیں پا سکے ہیں۔  عالمی معیار کے مطابق ہارٹی کلچر کے لئے مطلوبہ فنڈنگ اب بھی خاصی کم سطح پر ہے۔


متعلقہ خبریں