’مغربی ممالک بھارت پر دباؤ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے مغربی ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت پر دباؤ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامرضیاء کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کی سیاست منافقت پر مبنی ہے۔ وہ اصولوں کی نہیں بلکہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں، انہوں نے اپنے ہمیشہ انسانی حقوق کو اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ عراق میں جنگ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے لیکن ان ممالک نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کیں۔

سینیئر تجزیہ کارناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ برطانوی حکومت جاتے وقت ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ چھوڑ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے مفادات کے لیے دوسروں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ فرانس نے سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں مظلوم کشمیریوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ مغرب میں عوام انسانی حقوق کے ساتھ اور ان کی حکومتیں مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔

عالمی امور کے ماہر ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ مغرب کی حکومتوں کو بھی انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر ہم عالمی رائے عامہ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ پالیسی کی تبدیلی کے لیے حکومتوں کو تبدیلی پر مجبور کرسکتی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک بھارت پر دباؤ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے کشمیر سے متعلق رپورٹوں میں تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن اس سے ان ممالک کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی نے کہا کہ مغربی ممالک کے لیے انسانی حقوق ایک سیاسی نعرہ ہے، معاشی مفادات کے تحفظ کے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں۔ مغرب میں عوام انسانی حقوق کے ساتھ ہیں اور وہی حکومتوں کو اس حوالے سے سرگرم ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ممکنہ ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ امریکہ بھارت پر دباؤ ڈالے گا۔ بھارتی وزیراعظم بھی امریکی صدر کی بات کو ٹالنے کی کوشش کریں گے، ہمارے لیے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کیا امریکہ کی ثالثی سے ہمیں انصاف مل سکے گا۔

ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈٹرمپ اور امریکہ نے پانچ اگست کے اقدام کی مخالفت یا مذمت نہیں کی جس کے بعد مثبت توقعات نہیں رکھ سکتے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عمران خان اور نریندرمودی کی ملاقات ہوجائے۔

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ پاکستان امریکہ پر اعتماد نہیں کرسکتا کہ بھارت کے ساتھ اس کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ ڈونلڈٹرمپ کشمیریوں کے حوالے سے نریندرمودی پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکیں گے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ اگر ظالم اور مظلوم کو ایک ہی نصحیت کی جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ ظالم کے ساتھ ہیں۔ بھارتی مظالم کے خلاف کسی نے کھل کر مذمت نہیں کی ہے۔اس معاملے پر جب تک ہم کچھ نہیں کریں گے ڈونلڈٹرمپ بھی کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

اطہرکاظمی نے کہا کہ ڈونلڈٹرمپ اگر بھارتی وزیراعظم سے افغان امن عمل کو زہن میں رکھ کر بات کریں گے تو اس سے کشمیریوں یا پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکہ کی ترجیح خطے میں مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔

عالمی عدالت انصاف سے رجوع کے فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ آواز سنی جائے یا نہ سنی جائے، ہمیں بلند ضروری کرنی چاہیے۔ بھارت کے مظالم کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اداروں کی رپورٹیں موجود ہیں جو بھارت کے خلاف ثبوت ہیں۔

عامر ضیاء نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انصاف نہیں ملا۔ پاکستان کا عالمی عدالت انصاف جانا صرف علامتی قدم ہےاس سے بھارت پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا۔ بھارت ظلم کرتا ہے اور بدلے میں صرف بیانات دیتے ہیں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ انصاف ملنا اور پھر اس پر عمل ہونا الگ الگ باتیں ہیں، ہمیں اپنا کیس پوری تیاری سے لڑنا چاہیے کہ اس میں بھارت کے خلاف بہت سارا مواد موجود ہے۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ اس کیس میں بھارت کے خلاف پوری تاریخ بطور گواہ موجود ہے۔ بھارت کے خلاف فیصلہ آبھی جائے تو اس پر عمل نہیں ہونا ہے لیکن بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانا ضروری ہے۔

اطہرکاظمی کا کہنا تھا کہ اب تک جتنا انصاف ملا ہے، سب کو پتہ ہے۔ ہمیں توقعات کم رکھ کر ضروری عالمی عدالت میں جانا چاہیے تاکہ دنیا کو حقائق کا پتہ چل سکے۔ پاکستان کو یہ بات جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی اٹھانی چاہیے۔

جاری خسارے میں کمی سے متعلق سوال کے جواب میں عامرضیاء نے کہا کہ امپورٹس کی کمی کی وجہ سے خسارہ کم ہوا ہے۔ حکومت کو معاشی میدان میں ابھی بہت کام کرنا ہے کہ معیشت سست روی کاشکار ہے۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھا ماحول بنائے۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ ہمیں اپنی معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہوگا۔ عام آدمی مشکل میں ہے اور اسے اب تک کوئی تعاون نہیں ملا ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ خسارے میں کمی کی وجہ حکومتی معاشی پالیسیاں نہیں بلکہ معاشی سرگرمیوں میں کمی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی سست روی ہے۔ حکومت اب تک پیداوار یا آمدن بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔

ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ ایک ماہ کی کارکردگی پر حکومتی پالیسی کو کامیاب یا ناکام نہیں کہا جاسکتا، عوام پہلے ہی معاشی طور پر بدحال ہیں اور حکومتی پالیسیوں کی نتیجے میں معاشی پیداوار میں اضافہ بھی نہیں ہورہا ہے۔

اطہرکاظمی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف جیسے سیاسی معاملات میں الجھن کاشکار ہے ویسے ہی اس کی معاشی پالیسیوں میں بھی الجھن نظر آتی ہے۔ معاشی میدان میں بھی انہیں سمت دینے میں کافی وقت لگا ہے۔


متعلقہ خبریں