’وزیراعظم کا بھارت سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ درست ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بھارت سے اب مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ درست ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈئیر(ر) غضنفرعلی نے کہا کہ پرویزمشرف کے دور سے اب تک بھارت سے کوئی بھی مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ہیں، عمران خان نے بھی اقتدار میں آکر پیشکش کی لیکن بھارت نے مثبت جواب نہیں دیا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار عامرضیاء نے کہا کہ عمران خان کو ایک سال بعد پتہ چلا ہے کہ بھارت مذاکرات نہیں چاہتا۔ ہماری قیادت معصوم ہے لیکن بھارت کی پہلے دن سے یہی سوچ ہے۔ اس حوالے سے آصف زرداری اور نوازشریف کے خیالات بھی غلط ثابت ہوچکے ہیں، عمران خان کی بھی بار بار پیشکش کو بھارت نے ہماری کمزوری سمجھا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے، عمران خان کو پہلے گمراہ کیا گیا کہ نریندرمودی الیکشن جیت کر مذاکرات کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ عمران خان نے اصلاحاتی ایجنڈے کے باعث بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن بھارت اس سلسلے میں کبھی آگے نہیں بڑھا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات آج نہیں تو کل ضرور ہوں گے۔

سینئیر تجزیہ کار ضغیم خان نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ نہیں کہا کہ بھارت سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے بھارتی تحفظات پر بھی بات کرنے کی پیشکش کی لیکن بھارت کی جانب سے اسے قبول نہیں کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے پرامن احتجاج پر پابندی کے خاتمے سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن بھارت جو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اسے اس سے باز رکھنا بہت ضروری ہے۔

عامر ضیاء نے کہا کہ بھارت چونکہ اس خطے میں بالادستی چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اس سے اسی کی زبان میں بات کی جائے۔ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے کے بیانات سے بھارت پر دباؤ نہیں بڑھے گا۔

بریگیڈئیر(ر) غضنفرعلی نے کہا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہومین رائٹس واچ کی رپورٹس موجود ہیں لیکن ان سے پہلے بھی بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور نہ ہی اب پڑے گا۔

ضیغم خان نے کہا کہ بھارت اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن یہ معاملہ اب دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ کوئی بھی ملک پاکستان کے لیے اپنے مفادات قربان نہیں کرے گا لیکن ایٹمی جنگ کے خطرہ کسی بھی ملک میں اس معاملے میں مداخلت پر مجبور کرسکتا ہے۔

کامران یوسف نے کہا کہ رپورٹس سے بھارت کا رویہ نہیں بدلے گا لیکن اس پر رویے میں اضافہ ضرور ہوگا۔ کشمیریوں کے لیے حالات مایوس کن ہیں لیکن عالمی میڈیا پہلی بار متوجہ ہوا ہے۔

حریت قیادت کی جانب سے کرفیو توڑنے کی اپیل سے متعلق سوال کے جواب میں عامرضیاء نے کہا کہ حریت رہنما اور کشمیری بہت زیادہ جدوجہد کررہے ہیں کہ انہیں بھارت کی درندگی کا سامنا ہے، پرامن احتجاج سے مسئلہ حل نہیں ہوگا لیکن پرامن مظاہروں سے دنیا کی توجہ مزید بڑھے گی۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ کشمیریوں کی بھارت کے خلاف مزاحمت کی ایک تاریخ ہے، یہ جدوجہد جاری تھی اور جاری ہے۔ احتجاج سے بھارت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔

کامران یوسف نے کہا کہ بھارت پر دباؤ نہ ہوتا تو مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج نہ بھیجی ہوتی لیکن کشمیری اس کے باوجود خوفزدہ نہیں ہیں۔ اس موقع پر بھارت نے اگر نہتے کشمیریوں پر طاقت کا استعمال کیا تو اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

ضیغم خان نے کہا کہ اس وقت دنیا کی نظریں کشمیر پر لگی ہیں کہ کشمیری کیا ردعمل دیتے ہیں۔ حریت کی اپیل پر بڑا مظاہرہ ہوگا جو بھارتی دعووؤں کی تردید ہوگی، اگر یہ جدوجہد ایسے ہی پرامن رہی تو عالمی ضمیر جاگے گا۔

کراچی میں سیاسی کشیدگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ کراچی میں سیاسی کشیدگی نہیں بلکہ بے ہودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام کی مشکلات سالوں سے ہیں جن کو وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت سے کوئی حل نہیں ہورہا ہے۔

عامرضیاء نے کہا کہ جب کراچی میں سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں تب بھی مسائل حل نہیں ہوتے تھے، کراچی میں مضبوط شہری نظام کی سخت ضرورت ہے لیکن موجودہ قوتیں ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

کامران یوسف نے کہا کہ کراچی کے عوام سے گلہ ہے کہ وہ ان جماعتوں کو ووٹ کیوں دیتے ہیں جو ان کے مسائل حل نہیں کرتے، عوام اس جماعت کو ووٹ دیں جو کام بھی کرے۔

ضیغم خان نے کہا کہ پاکستان میں غریب کے ساتھ جو ہوتا ہے، وہ اس کی ماں کراچی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ بڑے شہر خود کو چلاتے ہیں لیکن کراچی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔

بریگیڈئیر(ر) غضنفرعلی نے کہا کہ پورے سندھ کا آج بھی وہی حال ہے جو کئی دہائیاں پہلے تھا۔ کراچی کے لیے دکھ کی بات ہے کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوتے، کراچی میں کوئی قیادت نہیں ہے اس لیے ان کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ’حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے باغی سینیٹرز کے خلاف کارروائی نہیں کرینگی‘


متعلقہ خبریں