جج ویڈیو اسکینڈل : نوازشریف کے دوبارہ ٹرائل کا معاملہ ہائی کورٹ کے سپرد



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف دوبارہ ٹرائل کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ خود کرے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جج کے طرز عمل سے ٹرائل کے متاثر ہونے کا معاملہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے، سپریم کورٹ اس موقع پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اور اس کا ہائیکورٹ میں زیرالتوا درخواست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

عدالت عظمی نے مزید لکھا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو اور آڈیو ٹیب اس وقت تک بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتی جب تک یہ اصل ثابت نہ ہو جائے، ویڈیو کو بطور ثبوت تسلیم کرنا متعلقہ عدالت کا اختیار ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فریق عدالت کے سامنے ویڈیو پیش کرتا ہے تو اسے ویڈیو کے تمام متعلقہ معاملات کو بھی ثابت کرنا ہو گا جبکہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ ویڈیو درست ہے یا اسے ایڈٹ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ارشد ملک نے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں بلیک میل ہونے کو تسلیم کیا ہے، یہ ایک چونکا دینے والا اعتراف ہے، جج کے اس طرز عمل سے ہزاروں ایماندار اور شفاف ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ  مقدمے کا فیصلہ پانچ نکات پر مشتمل ہے، پہلا نکتہ یہ ہے کہ کس فورم پر ویڈیو کا فرانزک ہونا چاہیئے اور اگر ویڈیو اصل ثابت ہو جائے تو اسے کیسے عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور نکتہ میاں نواز شریف کے مقدمے کے متعلق ہے، سوال یہ ہے کہ ویڈیو کس طرح سے اس پراثرانداز ہوسکتی ہے، ہم نے اپنے فیصلے میں جج ارشد ملک کے مس طرز عمل کے حوالے سے بھی لکھ دیا ہے۔

یاد رہے تین روز قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان سے استفسار کیا کہ ارشد ملک کی خدمات لاہورہائیکورٹ کوواپس کیوں نہیں کی جا رہیں ؟

انہوں نے کہا کہ کیا جج ایسا ہوتا ہے جو سزا دینے کےلیے مجرم کے پاس جائے؟ جج کے اس کردار سے ججز کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لئے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا وہ مبینہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرایا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مبینہ شخص سامنے نہیں آیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے اس وقت کی حکومت نے پاناما فیصلے کے بعد ارشد ملک کی تعیناتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ سے ابہام پیدا ہوا ہے ، ویڈیوزغالباً 2 تھیں قابلِ اعتراض ویڈیو وہ تھی جس سے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی، لگتا ہے کسی نے ویڈیو کے ساتھ کھیلا ہے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر جنرل نے بتایا کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرایا گیا ہے جبکہ نئی ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوسکا۔

اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ’’ پورے پاکستان کے پاس ویڈیو ہے، صرف ایف آئی اے کے پاس نہیں، جس ویڈیو کا سوال ہو رہا ہےاس کا فرانزک کیوں نہیں ہوا؟‘‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ  ویڈیو یوٹیوب سے لی گئی ہے اس لیے فرانزک نہیں ہوسکتا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پہلی وڈیو اصل ہے، دیکھنا ہوگا ویڈیو کی کاپی اوریوٹیوب ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جنہوں نے کہانی بنائی وہ لاتعلق ہوگئے اور لاتعلقی کا اظہارایف آئی اے کےلیے مشکلات کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج خود مان رہا ہے کہ ان کے اِس (شریف) خاندان سے تعلقات تھے، وفاقی حکومت نے ارشد ملک کو ابھی تک اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے؟ انہیں لاہور نہ بھجوا کرتحفظ دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت تفتیش کی مانیٹرنگ نہیں کرسکتی، جج کے کردار کی حد تک عدالت معاملہ دیکھ سکتی ہے۔

اس موقع پر وکیل اکرام چوہدری نے استدعا کی کہ عدالت اس  معاملے میں کمیشن بنائے یا تحقیقات کومانیٹر کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مانیٹرنگ کرے تو اعتراض کیا جاتا ہے، مانیٹرنگ نہ کریں تو کہا جاتا ہے مانیٹرنگ کریں۔


متعلقہ خبریں