تقرریوں، تبادلوں پر قانون سازی میں تاخیر پر سندھ ہائی کورٹ برہم

فنڈز کا حساب لوں گا اور حساب دوں گا بھی، وزیر اعلیٰ سندھ

فوٹو: فائل


کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ پولیس میں تبادلوں اور تقرریوں کے لئے قانون سازی نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ ایک خاص مدت میں قانون سازی کی ہدایت کی تھی، ساری عمر کے لئے اجازت نہیں دے سکتے۔

منگل کو وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اور چیف سیکرٹری رضوان میمن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے تنبیہہ کی کہ اگرقانون سازی میں مزید تاخیر ہوئی تو آئین کے مطابق فیصلہ جاری کریں گے۔

عدالت عالیہ نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو سندھ کابینہ کے حالیہ اجلاس کے منٹس پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کرامت علی نے موقف اختیار کیا کہ سندھ پولیس ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ ایکٹ 2017 میں آئی جی کی سفارشات پر عمل نہیں کیا جارہا۔ جوعدالتی حکم کے پیرا 96 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں چیف سیکریٹری اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی استدعا کی گئی۔

سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ  سندھ پولیس میں افسران کی تقرری اور تبادلوں کی مدت کے لیے قانون سازی کے معاملے پر آئی جی سندھ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل  نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو کابینہ اور مشاورتی اجلاسوں میں بلایا گیا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ حکومت اور آئی جی سندھ ایک پیج پر نہیں ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی سندھ کی مشاورت سے قانون سازی کے لیے کمیٹی بنائی گئی جو معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل  نے عدالت کو بتایا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ آئی جی نے سندھ حکومت کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔


متعلقہ خبریں