کشمیر میں کرفیو کا 21 واں دن: مودی حکومت پہ کشمیریوں کی ہیبت طاری

کشمیر میں کرفیو کا 21 واں دن: مودی حکومت پہ کشمیریوں کی ہیبت طاری

سری نگر: مقبوضہ وادی کشمیرمیں بھارت کے تازہ غیر انسانی ظلم و ستم کے تسلسل کو 21 واں دن گزر رہا ہے لیکن قابض بھارتی افواج اور مودی حکومت پہ چھائی مظلوم کشمیریوں کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ وہ کرفیو میں معمعولی سی بھی نرمی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بدستور تین ہفتے تک تسلسل کے ساتھ کرفیو رکھنے کی روایت دنیا میں نہیں ملتی ہے۔

مہذب دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی بھی علاقے میں بدترین حالات کے بعد کرفیو نافذ کرنے والی حکومت کو زیادہ سے زیادہ 48 یا 72 گھنٹوں کے بعد چند گھنٹوں کے لیے کرفیو میں نرمی لازمی کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک دن کے وقفے سے نرمی کی جاتی ہے تاکہ عوام الناس اپنی بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کرلیں۔

سید علی گیلانی نے پاکستان، پاکستانی عوام اور مسلم امہ سے مدد کی اپیل کردی

ظالم و سفاک مودی حکومت کو اس بات کا رتی برابر بھی خیال نہیں ہے کہ کرفیو زدہ وادی میں اشیائے خورو نوش کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے، بچے دودھ و ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بلک رہے ہیں، بزرگ مریضوں کی اسپتال نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے جانوں پر بنی ہوئی ہے اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری مقبوضہ وادی سے اپنے پیاروں کے متعلق کسی بھی قسم کی اطلاع نہ مل سکنے کی وجہ سے دن رات اذیت میں مبتلا ہیں۔

۔۔۔ لیکن دنیا کو مقبوضہ وادی چنار کا مواصلاتی نظام معطل کرکے ’سب اچھا ہے‘ کی نوید سنانے والی جنونی ہندوؤں کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حقیقت اس وقت عالمی سطح پر بے نقاب ہوئی جب اس نے اپنے ہی ملک کے شہری اور کانگریسی رہنما راہل گاندھی سمیت دیگر ساسی رہنماؤں کو گزشتہ روز سری نگر میں داخلے کی اجازت نہیں دی حالانکہ انہیں خود مقبوضہ وادی کے گورنر نے مدعو کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ وادی کشمیر کے گورنر کے عزائم یہ تھے کہ وہ بھارت کے اپوزیشن رہنماؤں اور ذرائع ابلاغ  کو بتا سکیں کہ پوری مقبوضہ وادی کشمیر میں امن کے ترانے گائے جارہے ہیں، لوگ خوش و خرم ہیں، اسکول و دیگر تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں، بازاروں میں رش ہے اور زندگی معمول کے مطابق بسر ہورہی ہے جیسا کہ مودی سرکار پوری دنیا میں پروپگنڈہ کررہی ہے مگر چونکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں اس لیے عین وقت پر دیا جانے والا دعوت نامہ منسوخ کرکے بھارتی اپوزیشن رہنماؤں اور صحافیوں کے ساتھ قابض بھارتی افواج نے کسی حد تک وہی سلوک کیا جو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔

بھارت کی قابض افواج اور نیم فوجی دستوں نے جس طرح بہیمانہ انداز سے اپنے ہی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس سے عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی بڑی حد تک مقبوضہ وادی کشمیر کی صورتحال واضح ہوگئی ہے اور اس کا بھیانک چہرہ کسی حد تک بے نقاب ہوگیا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق کسی بھی احتجاج سے خوفزدہ بھارت کی قابض افواج اور اس کی انتظامی مشینری نے پوری وادی چنار کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کے بعد مزید رکارٹیں بھی کھڑی کردی ہیں اور اضافی نفری تعینات کی ہے کیونکہ کئی مقامات پر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق نوجوانوں نے کرفیو توڑنے کی کوشش کی تھی۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال

نوجوانوں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کی بنیادی وجہ معصوم و شیر خوار بچوں کا بھوک سے بلکنا اور بزرگوں کا تکلیف سے کراہنا تھا۔ اطلاعات کے مطابق نوجوانوں سے جب اپنے خونی رشتوں اور پڑوسیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نہ دیکھا گیا تو انہوں نے خلاف ورزی کی جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہو گئے لیکن قابض افواج نے احتجاجی مظاہرین پر جو خوراک تک رسائی کے لیے کوشاں تھے پر اندھا دھند آنسو گیس کے شیل پھینکے، پیلٹ گنزکا استعمال کیا اور فائرنگ کی جس سے علاقوں میں مزید اشتعال پھیل گیا۔

مقبوضہ وادی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارتی افواج نے اس احتجاج کے بعد اپنی تابڑ توڑ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گھروں میں گھس کر چادر و چہاردیواری کا تقدس پامال کیا، لاتعداد نوجوانوں کو گرفتار کیا، خواتین کے بے حرمتی کی اور انہیں بہیمانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔

افسوسناک اور شرمناک امر ہے کہ بچوں اور بزرگوں کے لیے خوراک اور ادویات کا بندوبست کرنے کے لیے کرفیو کی پابندیاں توڑ کر سڑکوں پہ نکلنے والے مظلوم کشمیری زخمی ہو کر جب اپنے گھروں پہ سہاروں کے ساتھ پہنچے  تو مجبوراً اپنے زخموں کا علاج بھی خود ہی کررہے ہیں کیونکہ انہیں اسپتالوں تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔

مقبوضہ وادی کشمیر کی سیاسی قیادت، حریت رہنماؤں سمیت قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی اسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کشمیری عوام کے نام ایک خط بھی تحریر کیا ہے۔


متعلقہ خبریں