ایرانی وزیر خارجہ، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے نقش قدم پر۔۔۔؟

سعودی تیل تنصیبات پر حملہ: اقوام متحدہ کی تحقیقات تسلیم نہیں کریں گے، ایران

اسلام آباد: دنیائے سفارتکاری میں آج تک یہ امر حیران کن ہی سمجھا جاتا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اچانک سابق صدر پاکستان جنرل ضیاالحق کرکٹ میچ دیکھنے بھارت پہنچ گئے تھے۔ اس وقت دونوں ممالک کی افواج سرحدوں پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑی تھیں۔ اس دورے کے بعد دونوں ممالک کی افواج اپنی سابقہ پوزیشنوں پر واپس آگئی تھیں کیونکہ آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی کے احکامات پر بھارتی فوج کے سربراہ نے اپنی افواج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔

امریکہ، ایران معاہدہ: نئے مسودے کا اہم نکتہ سامنے آگیا

کہا جاتا ہے کہ اس دورے میں وقت رخصت جنرل ضیاالحق نے بھارتی وزیراعظم کو نہایت سخت پیغام انتہائی پیار بھرے انداز میں دیا تھا جس نے ان پر کپکپی طاری کردی تھی۔

اسی طرح ایک اور تاریخ اس وقت رقم ہوئی تھی جب پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران اچانک بھارت کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاس پہنچ کرمصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم کے پاس کوئی موقع نہ تھا کہ وہ ہاتھ ملانے سے گریز کرتے تو لامحالہ انہیں ہاتھ ملانا پڑا تھا۔

2002 میں جب جنرل پرویز مشرف نے کھٹمنڈو میں اچانک اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملایا تو اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کی برف پگھلی تھی۔

ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف پر امریکی پابندیاں عائد

ایسا ہی واقعہ چند گھنٹے قبل اس وقت وقوع پذیر ہوا جب ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف اچانک فرانس میں منعقد ہونے والے جی -7 سربراہی اجلاس میں اچانک پہنچے تو فی الوقت ان کے بدترین دشمن گردانے جانے والے امریکی وفد پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ نے سربراہی اجلاس میں ڈرامائی شرکت کی جو فرانس کے شہر بیارٹز میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہیں۔

 

خبررساں ادارے کے مطابق جواد ظریف کی متعدد عالمی رہنماؤں سے سائیڈ لائن پر ملاقاتیں ہوئیں جسے انہوں نے کافی تعمیری قرار دیا۔ ایرانی وزیرخارجہ نے اعتراف کیا کہ آگے بڑھنے کا راستہ مشکل ضرور ہے لیکن کوشش تو کی جانی چاہیے۔

ٹرمپ بیرونی پالیسیوں پر دیگر کو ساتھ لے کر چلیں، جوادظریف

دلچسپ امر ہے کہ خود وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ فرانس کی جانب سے جواد ظریف کو جی-7 سربراہی اجلاس میں سائیڈ لائن پر ملاقاتوں کی اجازت دینا ان کے لیے حیران کن ہے۔

ایران کے وزیرخارجہ نے فرانس کے صدر سمیت اپنے ہم منصب سے بھی ملاقات کی لیکن امریکی حکام سے ان کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔


متعلقہ خبریں