افغان امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا؟ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مدمقابل

افغان امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا؟ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مدمقابل

واشنگٹن: افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات جب آخری اور حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں تو ایسے میں ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ترین افراد کے درمیان موجود تضادات اور اختلاف رائے کھل کر سامنے آگیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف معاہدے پر دستخط کا عمل خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ اس بات کے بھی خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں ایک مرتبہ پھر امریکی انتظامیہ کے اہم ترین افراد کی جانب سے استعفوں کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے۔

جم میٹس کے بعد امریکی خصوصی ایلچی بریٹ مک بھی مستعفی

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب شام سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کرنے کے بعد ہونے والے معاہدے پر دستخط کیے تھے تو اس وقت امریکہ کے سیکریٹری دفاع جنرل میٹس سمیت چند دیگر اعلیٰ حکام نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہونے کو ترجیح دی تھی۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے پینٹاگون میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔

دلچسپ امر ہے کہ امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز ہی انڈیانا میں سابق امریکی فوجیوں کے لیے منعقدہ ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کی وطن واپسی کا خواہش مند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کبھی بھی افغانستان میں اپنی فوج کو مستقل رکھنے کا خواہش مند نہیں رہا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واضح ہدایات ہیں کہ جلد از جلد افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کو ممکن بنایا جائے۔

جنرل ڈنفرڈ نے بات چیت میں اس بات کا عندیہ دیا کہ امن سمجھوتہ جوں کی توں والی صورتحال کو تبدیل کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 18 سال سے جاری خانہ جنگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وہ ضروری ہے۔

پینٹاگون میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ شرائط پر مبنی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔

جنرل ڈنفرڈ نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ یہ بات قبل از وقت ہوگی کہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہماری موجودگی کس نوعیت کی ہوگی؟ ان کا دو ٹوک مؤقف تھا کہ جب تک اس بات کا احاطہ نہ کر لیا جائے اس وقت تک فوجی انخلا کی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت ایک ایسے وقت میں کی ہے کہ جب دوحہ میں جاری امن معاہدے پر دستخط زیادہ دور کی بات نہیں رہ گئی تھی لیکن اب ملین ڈالرز کا یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا واقعی دستخط ہو جائیں گے؟ کیونکہ مبصرین کے مطابق حالات سے ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کا پینٹاگون اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں۔

‘امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا کی یقین دہانی کرادی‘

ماضی میں بھی کئی مواقع ایسے آئے ہیں کہ جب امریکی پینٹاگون اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ایک صفحے پر نہیں تھے جب کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی پالیسی سے پینٹاگون اختلاف کرتا دکھائی دیا جب کہ کچھ مواقع پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایسے امور سے اپنی لاعلمی ظاہر کی جس کے متعلق وائٹ ہاؤس بتا چکا تھا۔

افغان امن معاہدے کے حوالے سے دوحہ قطر میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکراتی عمل میں شریک افغان طالبان کی جانب سے عائد کردہ پہلی شرط ہی یہ ہے کہ امریکی افواج کی قیادت میں موجود غیر ملکی افواج اپنے انخلا کا نظام الاوقات بتائے وگرنہ اس کے بنا وہ کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔

افغانستان سے قبل از وقت فوجی انخلا غلطی ہوگی، جنرل مائیک مائلی

قطر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ابتدائی طور پر مذاکرات میں شریک فریقین کے مابین طے ہو گیا تھا کہ افغانستان سے آئندہ 15 سے 20 ماہ کے دوران غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔


متعلقہ خبریں