’مقبوضہ کشمیر میں جذبہ حریت کو دبانے کے لیے بھارتی جبر میں اضافہ ہوسکتا ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو کے باوجود احتجاج ہورہا ہے جسے دبانے کے لیے بھارتی مظالم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سید ثمر عباس نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جب کرفیو ہٹے گا تو کشمیری مزید مزاحمت کریں گے جسے دبانے کے لیے بھارت تشدد کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے ہر معاملے پر کوشش کی ہے کہ کسی طرح وہ اس معاملے کر دبا سکے، کشمیریوں کو ادراک ہے کہ ان کی منزل بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہے۔

ائر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ بھارت تشدد کے زریعے مزاحتمی تحریک کو دبانے کی کوشش کرے گا، ہماری کمزریوں کا بھارت نے فائدہ اٹھایا ہے اور خصوصی حیثیت ختم کردی ہے۔ بھارت نے جو کیا ہے یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ آنے والے دنوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا کیونکہ بھارتی افواج کے رویے میں مزید جارحیت آئے گی۔ بھارتی افواج جتنا بھی ظلم کرلے کشمیریوں نے اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہلوانا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ کشمیریوں کو بھارت سے آزادی چاہیے، بے شک وہ نہتے ہیں لیکن ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ نریندرمودی نے ٹرمپ کو کہا کہ یہ پاکستان اور بھارت کا معاملہ ہے لیکن آج بھارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

تجزیہ کارضیغم خان نے کہا کہ کشمیری خوف سے گزر چکے ہیں وہ اب تشدد سے خوفزدہ نہیں ہوسکتے۔ کشمیر میں جاری مظالم کو دنیا تسلیم کرچکی ہے اور اس بنیاد پر دنیا سے ہمدردی بھی مل رہی ہے، بھارت کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح معاملے کو طاقت سے دبا لے۔

بھارت پر دباوؤ سے متعلق سوال کے جواب میں سید ثمر عباس نے کہا کہ ہماری سفارت کاری دنیا میں اس دن کامیاب ہوگی جس دن کشمیریوں پر مظالم کا خاتمہ شروع ہوجائے گا۔ ہماری سفارت کاری ردعمل پر مبنی ہے۔

شاہدلطیف نے کہا کہ ہمیں مزید دباو بڑھانا ہوگا کہ اب تک کی سفارت کاری سے دنیا میں اس موضوع پر بات شروع ہوئی ہے، آج اسی کی بدولت دنیا میں کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھ رہی ہیں۔

مشرف زیدی نے کہا کہ اب تک ہماری حکمت عملی کامیاب رہی ہے لیکن دنیا کے سامنے یہ معاملہ بھارتی رویے اور کشمیریوں کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ ہم نریندرمودی کی طرف سے مذاکرات کا انتظار کررہے تھے لیکن انہوں نے یہ کردیا ہے۔ دنیا میں مسئلہ کشمیر ہماری سفارت کاری کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیریوں کی قربانیوں کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔

ضیغم خان نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ مسلمان ممالک پاکستان کی آواز سنتے تھے اور او آئی سی وہی کہتی تھی جو پاکستان چاہتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بھارت پر دباؤبڑھا ہے لیکن اس کی وجہ ہماری جارحیت نہیں ہے۔

افغان امن معاہدے سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ افغانستان سے فوج کا انخلاء ڈونلڈٹرمپ کے الیکشن کی بنیاد ہے، افغان طالبان کے ساتھ شرائط پر امریکی انتظامیہ میں اختلاف ہوگا لیکن معاہدہ ہوجائے گا۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ امریکہ میں امریکی اسٹبیلشمنٹ حکومتی کرتی ہے، وائٹ ہاؤس کی پالیسی نہیں چلتی کہ اوبامہ کا بیان آیا تھا کہ امن کا راستہ کشمیر سے نکلتا ہے لیکن بریفنگ کے بعد انہوں نے موقف بدل لیا تھا۔

ضیغم خان نے کہا کہ دونوں اداروں میں کھینچا تانی معمول کی بات ہے، امریکی صدر قائل ہوں تو یہ ادارے بھی ادھر ہی سوچتے ہیں۔ اگر کانگریس اور انتظامیہ کے درمیان مسئلہ ہوتا تو یہ سینجیدہ ہوتا لیکن اب نہیں ہے۔

مشرف زیدی نے کہا کہ امریکہ میں یہ سوچ حاوی ہے کہ طالبان کی تمام شرائط مان لی جائیں تاکہ وہ مذاکرات کی میز پرآجائیں۔

سید ثمر عباس نے کہا کہ امریکہ میں اختلافات طالبان کے مستقبل میں کردار کے حوالے سے اختلافات ہیں، پاکستان اس معاملے میں اہم کردار ادا کررہا تھا لیکن اب وہ مشرقی سرحد پر مصروف ہے اس لیے زیادہ توجہ افغان معاملے پر نہیں دے سکتا اور اس بات سے پاکستان نے امریکہ کو آگاہ کردیا ہے۔


متعلقہ خبریں