مسلمان رکن پارلیمنٹ بھی مودی حکومت کی نفرتوں کا نشانہ بننے لگے


رامپور: بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار کے ظلم و ستم کا نشانہ صرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہی نہیں بن رہے ہیں بلکہ بھارت میں رہنے والے دیگر مسلمان بھی اس کا شکار ہورہے ہیں جن میں رکن پارلیمنٹ تک شامل ہیں۔ اس کا واضح ثبوت گزشتہ روز اس وقت سامنے آیا جب سماج وادی پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ اعظم خان کی حالیہ مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اس طرح ہوا کہ ان کے خلاف پولیس نے ایک اور مقدمہ درج کرلیا ہے۔

بھارت میں دبنگ بیانات کے حوالے سے اپنی شناخت رکھنے والے رامپور کے اعظم خان کے خلاف جو نیا مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ بھینس چوری کا ہے۔ درج مقدمہ میں شکایت کنندہ آصف اورذاکر علی نے مؤقف اختیارکیا ہے کہ رکن پارلیمنٹ اعظم خان نے دیگر پانچ افراد کے ساتھ 15 اکتوبر 2016 کو ان کے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور 25 ہزار روپے مالیت کی بھینس چوری کرلی۔

ہجومی تشدد کے حوالے سے موجودہ مودی سرکار کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنانے والے اعظم خان کے خلاف درج مقدمہ میں دیگر 40 نامعلوم افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

1947 میں پاکستان نہیں گئے تو مسلمان ہجومی تشددسہیں، اعظم خان

گزشتہ کچھ دنوں کے دوران اتر پردیش کی پولس و انتظامیہ کی جانب سے اعظم خان کے خلاف انتخابات کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنے، زمین پر قبضہ کرنے، غیر قانونی طور پر املاک حاصل کرنے اور کتابیں چوری کرنے جیسے یکے بعد دیگرے تقریباً 50 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

کچھ روز قبل اعظم خان نے ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1947 میں پاکستان نہ جانے والے اب تشدد سہیں اور بھگتیں۔

دلچسپ امر ہے کہ بھینس چوری کا مقدمہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی نہایت مشہور ہے۔ یہ مقدمہ پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہورالٰہی کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ اسے اتنی شہرت ملی کہ آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جب سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں تو فوراً مثال بھینس چوری کے مقدمے کی دی جاتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں درج ہے کہ جب ’ڈیڈی‘ کہنے والے ’برخوردار‘ نے سیاسی راہیں جدا کیں تو 1968 میں ایک مقدمہ درج کیا گیا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سرکاری ٹریکٹر کو ذاتی زمین پہ استعمال کرکے قومی خزانے کو دو لاکھ 13 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

یہ مقدمہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا حالانکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے زیڈ اے بھٹو نے ملک کی دیگر سیاسی و جمہوری جماعتوں کی طرح بانی پاکستان کی سگی بہن اور مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابات میں حمایت نہیں کی تھی بلکہ ان کے خلاف جو زبان استعمال کی تھی وہ سیاست سے ازخود ریٹائرمنٹ لینے والے بزرگ بلوچ سیاستدان سردار شیر باز خان مزاری نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے۔

بھارت: بی جے پی کی مسلم دشمنی، فیروز شاہ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کردیا

پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خلاف قائم کردہ مقدمہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور برسر اقتدارآتے ہی سیاسی مخالف چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کرایا جسے بعد میں ختم کیا گیا۔

عوامی مسلم لیگ کے موجودہ سربراہ اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد پر پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کلاشنکوف رکھنے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد انہیں سات سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

شیخ رشید احمد نے اپنی اسی گرفتاری کے دوران پہلی کتاب فرزند پاکستان لکھی جسے سیاسی و صحافتی حلقوں میں خاصی پذیرائی ملی۔

میاں منظور احمد وٹو کے دور میں سابق صدر جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے اعجازالحق پر کلاشنکوف لہرانے کا الزام لگا جس پر ان کی گرفتاری عمل میں آئی لیکن بعد میں ایک اخباری بیان کے بعد انھیں رہا کردیا گیا۔

سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر کے خلاف جنرل ضیاالحق کے دور میں پانی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ مقدمہ مظفر گڑھ میں ہوا تھا۔

بھارت: شیوسینا نے تاج محل میں ’پوجا‘ کرنے کی دھمکی دے دی

پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ڈیرہ غازی خان میں مرحوم صدر پاکستان اور پی پی پی کی دوسری حکومت کو برطرف کرنے والے فاروق احمد خان لغاری کے صاحبزادے اویس لغاری کے خلاف بھی پانی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔

دونوں مقدمات میں عدالت نے جرم ثابت نہ ہوسکنے کی وجہ سے خارج کیے۔

غلام مصطفی کھر کی ایک اہلیہ جن کا نام نیلوفر ہے کو 2016 میں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا کہ ان کے پاس دو شناختی کارڈز ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں طیارہ ہائی جیک کرنے کا مقدمہ کراچی میں درج کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے سابق مشیر اور کالم نگار عرفان صدیقی کے خلاف گزشتہ دنوں اس بات پرمقدمہ درج کیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے مکان کا ایگریمنٹ متعلقہ تھانہ میں جمع نہیں کرایا تھا۔


متعلقہ خبریں