پنجاب سے پٹواری کلچر کا جنازہ نکال دیا ہے، راناثنااللہ

رانا ثناء اللہ کی جیل میں طبعیت بگڑ گئی

لاہور:پنجاب کے وزیر قانون راناثنااللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو اربوں روپے کی کھاد پچاس فیصد رعایت کے ساتھ بمعہ بلاسود قرض فراہم کی جارہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پٹواری کلچر کا سو فیصد تو نہیں البتہ بہت حد تک جنازہ نکل گیا ہے۔کرپشن تو ڈنمارک میں بھی مکمل ختم نہیں ہو سکی۔

لینڈ ریکارڈ سے متعلق اصلاحات کی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا ساڑھے پانچ کروڑ خاندانوں کی ملکیت کو محفوظ بنایا ہے۔ پٹواری کرپشن اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ گھر بیٹے لوگ اپنی جائیدادوں سے محروم ہو جاتے تھے۔ انھوں نے یقین سے کہا کہ اب پٹواری کے لئے کسی کو اس کی جائیداد سے محروم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

وزیر اعلی پنجاب کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف کے اقدامات سے پنجاب کے کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہے۔ اراضی سینٹرز پر لگنے والی لمبی لائن سے کسانوں کو اراضی کی منتقلی کے حوالے سے بے پناہ مشکلات تھیں۔

انھوں نے توقع ظاہر کی کہ پہلے 151 اور اب 3700 سینٹرز کے قیام سے کسانوں کو زمین کی منتقلی کے ضمن میں ہونے والی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔

پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کو اپنی طرز کا دنیا بھر میں نمبر ون ماڈل قرار دیتے ہوئے وزیر قانون نے امید ظاہر کی کہ دیگر صوبے بھی اس طرز کو اپنائیں گے۔

کسانوں کو خوشخبری دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کسان اب بینک سے لینڈ ریکارڈ پر بھی قرضہ لے سکیں گے اور اس نظام سے معیشت بھی مضبوط ہو گی۔ نظام کو شفاف رکھنے کے لئے اینٹیلی جنس سسٹم بھی متعارف کرایا گیا ہے ،اب پہلے جیسی شکایات نہیں آرہی ہیں۔

ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لینڈ ریکارڈ پر کام شروع کیا گیا تھا تو 12 اکتوبر کا مارشل لا آگیا تھا جس کے بعد سب کچھ صفر بٹہ صفر ہو گیا اور سارا منصوبہ کرپشن کی نذر ہو گیا۔

لاہور میں وکیل کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کل میٹنگ بلارہا ہوں جلد بھرپور ایکشن لیں گے۔

انھوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس کے بعد ساراریکارڈ نیب کے حوالے کرنے کی ہدایات دیں۔ ہمیں کیوں پریشانی ہو یا خوف لاحق ہو کیونکہ تحفظ تو وہاں دیا جائے جہاں کرپشن کی گئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ صاف پانی میں بدنام زمانہ 70 ارب روپے کی کرپشن ہونی تھی جسے ہم نے بچایا۔

پنجاب کے وزیر قانون نے کہا کہ کے پی کے سے احتساب کا ڈھول بجا کر سچی جھوٹی کہانیاں آتی ہیں لیکن ہم اپنا احتساب خود کررہے ہیں۔


متعلقہ خبریں