ایوان بالا میں گرفتار اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر پہ بحث


اسلام آباد: ایوان بالا میں  سوموار کے روز گرفتار اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر پر گرما گرم بحث جاری رہی۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹر شیری رحمان نے توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

انہوں نے ممبران کی توجہ اس جانب دلاتے ہوئے کہا کہ اس  حوالے سے سینٹ سیکرٹریٹ میں تحریک التوا بھی جمع کروا دی ہے۔ سینٹر رحمان نے مطالبہ کیا کہ ہمارے  تین  سے  چار  اراکین کو اس حوالے سے ایوان میں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ صابق صدر کے اسپتال منتقلی کے بعد پمز اسپتال میں جو کچھ  ہوا  وہ  سب  نے  دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی کوئی اسپتال میں ملاقات کیلئے جاتا تو حکومت کی جانب سے کرفیو نافذ کیا جاتا۔

پی پی پی کی سینٹر نے کہا کہ آصفہ بھٹو کے پاس کورٹ آرڈر کے باوجود آصف ذرداری سے ملنے نہیں دیا جاتا ہے۔ آصف زرداری کی تین آرٹیز بند ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا  کہ ہم احتساب سے نہیں گھبراتے لیکن سیاسی انتقام نہ لیا جائے۔
ایون بالا میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق نے کہا کہ بیماری کے علاوہ آصف زرداری پر تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے اس سلسلے میں اپیل بھی کرتا ہوں کہ وہ اس کا نوٹس لیں۔

راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے گرفتار  رکن اسمبلی  رانا ثناءاللہ کو سسر فوت کے جنازے  میں شرکت کی اجازت نہ مل سکی۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ حکومت اور نہ ہی  ملک کے لیے  اچھا ہے۔

پی پی پی سنیٹر ڑحمان ملک نے کہا کہ جس طرح آصف زرداری کی بے عزتی کی جارہی ہے شاید ہی کوئی آنے والے وقت میں رکن پارلیمنٹ بننا پسند کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آصف زرداری کا علاج ہسپتال میں ہوجائے تو حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اور ان کے گھر کو سب جیل  قراردیا جائے تو حکومت کا خرچہ بھی بچ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ضابطہ اخلاق  بنایا جائے جس  کے تحت کسی بھی  رکن پارلیمان کے پروڈکشن آرڈر کے لیے منتیں نہ کرنی پڑیں۔
پی پی پی سینٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ احتساب ضرور کریں لیکن انتقام نہ لیں۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے اس پارلیمنٹ کا وقار بلند کیا اور آصفہ بٹھو اس ملک کے محسن کی بیٹی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تلخی میں جانا نہیں چاہتا لیکن حکومت بھی کچھ خیال کرے۔ انہوں نے کہا کہ کیسز بن جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں حکومت آنی جانی ہے۔

انہوں نے چیٔرمین سینٹ سے اپیل کی  کہ وہ  اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں اور حکومتی ممبران ہمارے باتوں کا احترام کریں۔

پی پی پی سینٹر سسی پلیجو نے کہا کہ موجودہ ساری گرفتاریاں سیاسی ہیں۔ آصف زرداری کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ آصف زرداری کو فوری رہا کیا جائے، ایسی دشمنیاں تو ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہونی چاہئیں۔

پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینٹرعثمان کاکڑ نے کہا کہ مودی کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ اور عمران خان  کا رویہ حزب اختلاف کے ساتھ یکساں ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سیاسی انتقام میں اندھی ہوچکی ہے۔ نیب کو اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اصول کو پامال کرکے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جاتے۔ میں خود دو منتخب ایم این ایز سے ملاقات کرنا چارہا تھا لیکن انکار کیا گیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام گرفتار افراد کو طبی سہولیات اورپروڈکشن آرڈرز جاری کئے جائیں۔

پی ایم ایل این ن سینٹر جاوید عباسی  نے کہا کہ حکومت اس حد تک دشمنی میں چلی گئی ہے کہ ڈاکٹرز کے کہنے کے باوجود سیاسی اسیروں کو اسپتال میں جانے کی اجازت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی نہ این آر او مانگا نہ ہی آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ سیاسی انتقام کا سلسلہ بند کیا جائے

وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی ن کہا کہ ہم نے  حزب اختلاف کی بات  غور سے سنی اب میری بات بھی غور سے سنی جائے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے، حکومت ہر شخص کی جان ومال کی  ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر  انہں  یا قائد ایوان شبلی فراز کو اس بحث کا پتا ہوتا تو وہ وزیر داخلہ کو ایوان میں ضرور بلاتے۔

انہوں نے کہا کہ پرڈکشن آرڈرز پر انہیں اس حوالے سے اتنی معلومات نہیں اس پر وزیر داخلہ روشنی ڈال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی پر بھی کوئی کیس نہیں بنایا یہ تمام کیسز پرانے بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے جو کسی کے تابع نہیں۔ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کہا کہ نیب کو لگام دینے کی ضرورت ہے

چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی  نے  اعظم سواتی کو ہدایت کی کہ  سابق صدر کو صحت کے حوالے سے سہولیات فراہم کی جائیں۔

پی ایم ایل ن کے سینٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ 3 جولائی  کو تربیلا ڈیم  میں  کشتی ڈوب گئی اور 43 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 7 افراد کونکالا۔ کیا ملک میں سول ڈیفنس کے ادارے ختم ہوگئے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ابھی تک تربیلا میں کوئی ریسکیو اپریشن نہیں ہوا اور ڈوبی کشتی کو ابتک سیدھا نہیں کیا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی خیبر پختونخوا خادثہ کی جگہ گئے اور فوٹو سیشن  کر کے واپس اگئے۔  انہوں نے کہا کہ ابتک متاثرین کو اعلان کردہ رقم نہیں دی گئی، وزیراعلی نے امداد کا اعلان صرف خبرکے لئے کیا۔

انہوں نے مطالبہ  کیا کہ امدادی رقم کو ڈبل کیاجائے۔ چئیرمین سینیٹ نے معاملے پر کے پی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ وہ  خود اس معاملے پر وزیراعلی  سے بات کرتے ہیں


متعلقہ خبریں