زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان مؤخر: جمعرات کو آمد ہوسکتی ہے

زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان مؤخر: جمعرات کو آمد ہوسکتی ہے

اسلام آباد: امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان عارضی طور پر مؤخر کردیا گیا ہے۔

افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد نے گزشتہ روز اسلام آباد پہنچنا تھا۔ طے شدہ پروگرام  ان کی پاکستانی قیادت سے ملاقات ہونا تھی جس میں انہوں نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے متعلق صلاح و مشورہ کرنا تھا۔ وہ پاکستانی قیادت کو طے پانے والے معاہدے کی جزئیات سے بھی آگاہ کرتے۔

ہم نیوز کو اس ضمن میں اہم ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے دورہ پاکستان کو عارضی طور پر افغانستان میں ہونے والے حملوں کی وجہ سے مؤخر کیا گیا ہے۔

افغان امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا؟ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مدمقابل

اہم سفارتی ذرائع نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ جمعرات کو امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد پاکستان کا دورہ کرسکتے ہیں۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گرین ولیج میں پیر کی شب ایک خود کش کاربم حملہ ہوا تھا جس میں 16 افراد جاں بحق اور 119 زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل بھی دوحہ مذاکرات کے دوران دو حملے کیے گئے تھے جس میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کی شب ہونے والا خود کش کار بم حملہ عین اس وقت کیا گیا تھا کہ جس وقت طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے زلمے خلیل زاد کا ٹی وی انٹرویو نشر کیا جارہا تھا جس میں وہ افغان قوم کو معاہدے کی کامیابی کے متعلق بتا رہے تھے۔

دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے گزشتہ دنوں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ اس ضمن میں امریکی پینٹاگون اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

افغانستان: ’گرین ولیج‘ کے نزدیک خودکش کار حملہ، 16 ہلاک 119 زخمی

اس ضمن میں عام تاثر ہے کہ امریکہ میں نہایت بااثر تصور کیے جانے والے مشیر برائے قومی سلامتی امور جان بولٹن اور کچھ اعلیٰ فوجی افسران فی الفور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو قبل از وقت سمجھتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو سمیت دیگر حکام کی خواہش ہے کہ افغانستان سے فوراً غیر ملکی افواج کا انخلا ہو۔

شام سے فوجی اںخلا کے معاملے پر بھی امریکہ میں اعلیٰ سطحی اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے اور متعدد اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے صدر ٹرمپ کی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔


متعلقہ خبریں