کراچی میں ادویات سے منشیات تیار کرنے والی خفیہ لیبارٹریوں کا انکشاف


کراچی: قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں قائم ایسی خفیہ لیبارٹریز کا انکشاف کیا ہے جہاں ادویات سے منشیات تیار کی جا رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کی تھی۔ گرفتار ہونے والے افراد نے تفتیش کے دوران اس گھناؤنے دھندے کا انکشاف کیا تھا۔

دسمبر 2017 میں لیاری کے ایک مکان سے بڑی مقدار میں پیراسیٹامول اور پیناڈول سمیت سردی سے بچاؤ اور درد کش ادویات ملی تھیں۔ کارروائی کے دوران رینجرز نے سوڈوایفی ڈرین اور ڈیکسٹرومیتھورفن اجزاء رکھنے والی دوائیں ٹیلی نول اور وکس بھی قبضے میں لی تھیں۔

سندھ رینجرزکو گرفتار ہونے والے افراد سے منشیات کی ان اڈوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ کوئٹہ سے دو افغان باشندے باقاعدگی سے پیراسٹامول اور پیناڈول سی ایف پاؤڈر اور وکس سمیت مختلف ادویات خریدتے تھے۔

پیراسٹامول اور ٹیلی نول کو چیز ہیروئن نامی نشہ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سوڈوایفی ڈرین کو ایفی ڈرین کے متبادل کے طور پر استعمال کر کے بھی نشہ آوراشیاء بنائی جاتی ہیں۔

گزشتہ کچھ سالوں سے کرسٹل میتھ اور آئس ہیروئن پودوں سے بننے والی چرس اور ہیروئن کی جگہ لیتی جارہی ہے۔ کرسٹل میتھ اور آئس ہیروئن نامی دوا میتھافیٹامین کی خریدوفروخت لیاری سمیت ڈیفینس اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں کھلے عام ہوتی ہے۔

قانوں نافذ کرنے والے اداروں کو زرائع سے تفصیلات ملیں کہ مقامی اورغیرملکی فارماسیوٹیکل کمپنیاں بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کمپنیاں بعد از معیاد اور خراب ادویات سمیت فارما کا فضلہ تلف کرنے کے بجائے منشیات فروشوں کے ہاتھ فروخت کررہی ہیں۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر نجم الثاقب کا کہنا ہے کہ رینجرز اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی تحقیقات منظرعام پر آنے کے بعد اس سلسے میں مزید کاروائی کی جائے گی۔

کراچی میں 15 ڈرگ انسپکٹر کام کر رہے ہیں جب کہ سندھ میں 29 اضلاع کے لیے صرف نو انسپکٹرموجود ہیں۔ جس کے سبب انتظامیہ اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کو قانون کے شکنجے میں لانے میں تاحال ناکام ہے۔ یہ بات بھی واضح نہیں کہ جتنا عملہ موجود ہے اتنا کام ہو رہا ہے یا نہیں۔


متعلقہ خبریں