’پیپلز پارٹی کے ساتھ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے‘


پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر برائے اطلاعات و نشریات و لیبر سعید غنی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر و ایم این اے آصف علی زرداری کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ احسان اللہ احسان، ابھی نندن اور کلبھوشن جادویو کے ساتھ بھی نہیں کیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پُر ہجوم  پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے کیسز کو سندھ سے پنجاب یا اسلام آباد منتقل کیا جا سکتا ہے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے مقدمات کو سندھ منتقل کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

سعید غنی نے کہا کہ آصف علی زرداری کو عدالتی حکم کے باوجود سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں اور ڈاکٹروں کے بورڈ کی ہدایت کے باوجود انکو اسپتال منتقل نہیں کیا جا رہا،پیپلز پارٹی کو اس لئے دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنا موقف تبدیل کریں لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کو قبول کیا لیکن موقف تبدیل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے گیارہ سال جیل کاٹی، ظلم برداشت کیا اور ان کا بھی موقف تبدیل نہیں ہو گا اس سلوک کا سندھ میں کوئی ٹھیک پیغام نہیں جا رہا اپوزیشن کیلئے احتساب کا معیار اور ہے اور حکومتی رہنماؤں کیلئے معیار اور ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے میڈیا،عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کی ہے اور نالائق حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے یہ ہمارا جرم ہے جس کی وجہ سے دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کے خلاف ہمیشہ کرپشن کارڈ استعمال ہوتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں کچھ سیاسی یتیم ہیں جن کو ہر چھ ماہ بعد ٹیکہ لگایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت جانے والی ہے۔ عدلیہ سے گزارش ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رویہ آئین اور قانون کے مطابق رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اس کی مثال کسی اور پارٹی سے نہیں ملے گی، ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل کورٹ کی بجائے اعلیٰ عدلیہ میں چلایا گیا اور ان کو پھانسی دے دی گئی جو ایک سیاہ فیصلہ تھا آج بھی کوئی عدالت اس فیصلے کو ماننے پر تیار نہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ بینظیر کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا، آصف علی زرداری نے گیارہ سال بے گناہ جیل کاٹی اور اب ایک اور سیاسی انتقام کی تاریخ رقم کی جارہی ہے،پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر جو الزامات ان کا تعلق سندھ سے ہے جبکہ ان کا ٹرائل اسلام آباد اور پنجاب میں کیا جا رہا ہے اور اس کے اسباب یہ بتائے جا رہے ہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور سندھ حکومت ان فیصلوں پر اثر انداز ہو گی

صوبائی وزیر نے سوال اٹھایا کہ اگر انہی اسباب کو تسلیم کر لیا جائے تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے جن اراکین پر نیب کے الزامات ہیں ان کا ٹرائل سندھ میں کرایا جائے تو ہم سمجھیں گے کہ ان کی یہ لاجک درست ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ صرف انتقامی کاروائی تصور ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے ججوں اور نیب کے افسران کا تقرر وفاق سے کیا جاتا ہے اور سندھ میں ٹرائل کا نہ ہونا ججوں پر عدم اعتماد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں جو نہ ابھی تک ثابت ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہونگے، یہ صرف عوام کو گمراہ کرنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نہ احتساب کے خلاف ہے اور نہ ہی ایسے ہتھکنڈوں پر سمجھوتا کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ جو افراد پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ان کے خلاف مقدمات بھی ختم ہو گئے، لیکن ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پرویز خٹک، محمود خان، حلیمہ خان، پرویز الٰہی،اسد قیصراور دیگر برسر اقتدار شخصیات جن پر الزامات ہیں انہیں فی الفور گرفتار کیا جائے اور انکے خلاف آئین و قانون کے مطابق یکساں کارروائی کی جائے۔

صوبائی وزیر سندھ نے کہا کہ پیپلز پارٹی میڈیا اور عدلیہ کی آزادی،پارلیمنٹ کی بالادستی اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہے اورحکومت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے یہی پیپلز پارٹی اور اسکی قیادت کا جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمران چاہتے ہیں کہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کے خاندان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے تاکہ چیئرمین بلاول بھٹو کے موقف کو تبدیل کیا جا سکے لیکن ان کو پتہ نہیں کہ بھٹو خاندان پھانسی چڑھ جاتا ہے، سزائیں برداشت کر لیتا ہے، جلا وطنی کاٹ لیتا ہے مگر موقف تبدیل نہیں کرتا۔

پریس کانفرنس کے دوران  صوبائی وزیر امتیاز شیخ ناصر سیال، ناصر شاہ ،سید سردار علی شاہ ، سہیلی انور سیال، میر شبیر بجارانی ،عبدالباری پتافی، مکیش چاولہ، ایم پی.ایز ندا کھوڑو ، سعدیہ جاوید ، سنجیلہ لغاری ، شرجیل انعام میمن، محمد قاسم سومرو ،ذوالفقار علی شاہ ، فرخ علی شاہ ،
ممتاز جاکھرانی  بھی موجود تھے۔

سینیٹر روبینہ خالد ، سینیٹر کرشنا کولھی اور نذیر ڈھوکی بھی اس موقع پر موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیے: سابق صدر آصف زرداری کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جائے، شیری رحمان


متعلقہ خبریں