وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ یا چومکھی لڑائی ؟

پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، وزیراعظم

فائل فوٹو


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان جب ماہ رواں کے تیسرے عشرے میں جب امریکہ پہنچیں گے تو غالب امکان ہے کہ اس سے قبل وہ سعودی عرب کا انتہائی اہم دورہ کرچکے ہوں گے۔ امریکہ میں قیام کے دوران وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور ساتھ ہی سائیڈ لائنز پر ان کی دیگر غیر ملکی سربراہان مملکت سے ملاقاتیں بھی ہوں گی۔

وزیراعظم ایک ایسے موقع پر امریکہ جائیں گے کہ جب جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں تو افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اس لحاظ سے شدید دھچکہ لگ چکا ہے کہ طے پانے والے امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کا امکان معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

مسئلہ کشمیر: پاکستان کو سعودی عرب اور یو اے ای کی حمایت حاصل

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ ماضی کی نسبت اس لحاظ سے زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے کہ افغانستان سمیت متعدد دیگر امور پر پینٹاگون اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ایک صفحے پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ کچھ مبصرین کے خیال میں تو ’ ڈیپ اسٹیٹ‘ موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ نہیں ہے۔

ہم نیوز کو ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وزیراعظم امریکہ روانگی سے قبل سعودی عرب کا دورہ کریں جہاں ان کی خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہوں گی۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ چند روز کے دوران تین مرتبہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور انہیں مسئلہ کشمیر کی بابت آگاہ کیا۔ اس گفتگو کے بعد گزشتہ روز سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا ایک روزہ دورہ کیا جس میں مقبوضہ کشمیرکی صورتحال، وادی چنار میں اٹھائے جانے والے بھارتی اقدامات اور خطے کی صورتحال سمیت دیگر جملہ امور زیرغور آئے تھے۔

کشمیر:کرفیو کا 33 واں دن،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کشمیر کو بولنے دو مہم شروع کردی

ہم نیوز کے مطابق وزیراعظم کے متعلق سفارتی ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ وہ 19 ستمبر کو سعودی عرب روانہ ہوں گے جہاں سے 21 ستمبر کو امریکہ روانہ ہوں گے۔ طے شدہ پروگرام کے تحت وہ 23 ستمبر کو نیویارک پہنچیں گے جہاں 27 ستمبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کریں گے۔

وزیراعظم کے دورہ امریکہ کو حتمی شکل دینے اور ان کی دیگر سربراہان مملکت سے بات چیت کی تفصیلات طے کرنے کے حوالے سے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پہلے امریکہ پہنچیں گے جب کہ انہیں امریکہ میں مقیم پاکسانی سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی معاونت حاصل ہو گی۔

اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب وزیراعظم عمران خان نیویارک پہنچیں گے تو وہاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت دیگر عالمی رہنما موجود ہوں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دنوں عمران خان اور مودی کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے واضح طور پر عندیہ دیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیرکو بھرپور طریقے سے اجاگر کریں گے اور ان بھارتی اقدامات پر روشنی ڈالیں گے جن کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں ہمالیائی وادی میں اجیرن بن چکی ہیں۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو اپنے دورہ امریکہ میں ’چو مکھی‘ لڑائی لڑنا پڑے گی کیونکہ ایک جانب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی حکمت عملی ہے تو دوسری جانب پینٹاگون کی مختلف سوچ ہے۔

پینٹاگون کی سوچ کی کسی حد تک عکاسی سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کی تازہ ترین کتاب ’ کال سائن کیوس‘ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کی فوج میں کئی دہائیوں تک اہم ذمہ داریاں انجام دے چکنے والے جیمز میٹس نے اپنے منصب سے اس وقت استعفیٰ دیا تھا جب امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔

جم میٹس کے بعد امریکی خصوصی ایلچی بریٹ مک بھی مستعفی

روس کے مؤقر نشریاتی ادارے ’آر ٹی‘ کے مطابق جیمز میٹس نے اپنی تازہ کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت خطے کی سیاست کوبھارت سے دشمنی کے تناظر میں دیکھتی ہے اور وہ یقین رکھتی ہے کہ کابل میں ہم خیال حکومت کے قیام سے بھارت کا خطے میں بڑھتا اثر و رسوخ روکا جا سکتا ہے۔

آر ٹی کے مطابق پاکستانی معاشرے کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ایک تو اس میں بنیاد پرستی ہے اور دوسرے ان کے پاس جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی قیادت موجود نہیں ہے جو عام پاکستانیوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہو۔

جیمز میٹس نے اپن کتاب میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود تعلقات کو نہایت پیچیدہ قرار دیا ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ہم اپنے مسائل حل بھی کرسکتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات بہت زیادہ تھے اور اعتماد کی بھی کمی تھی۔

امریکی فوج میں اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے والے جیمز میٹس نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پاکستان کی فوج کا جانی نقصان سرحد پار افغانستان میں لڑنے والی نیٹو اور اتحادی افواج کے مقابلے میں زیادہ ہوا ہے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق چار روزہ دورہ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کو جہاں جیمز میٹس اور امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی امور جان بولٹن جیسی سوچوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہیں انہیں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت دیگر عالمی سرمایہ کاروں و صنعتکاروں کو اس بات پہ آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔

افغانستان سے قبل از وقت فوجی انخلا غلطی ہوگی، جنرل مائیک مائلی

اسی دورے میں وزیراعظم غیر ملکی سربراہان مملکت کو بھی مقبوضہ کشمیر کی صررتحال سے آگاہی دلانے کی کوشش کریں گے اور اس بات کے متمنی بھی ہوں گے کہ وہ عالمی فورم پر بھارت پہ اپنا دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ ہمالیائی وادی کشمیر میں اپنا ظلم و بربریت کا بازار ٹھنڈا کرے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دے۔

ملکی سیاسی مبصرین کے کہنا ہے کہ جس وقت وزیراعظم دورہ امریکہ میں مصروف ہوں گے عین اسی وقت پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں میدان سیاست کو گرم کرنے کی کوشش کریں گی اور غالب امکان ہے کہ ملک دشمن عناصر پیدا شدہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی بھی مذموم کوشش کریں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعطم عمران خان کو امریکہ میں اپنی موجودگی کے دوران ملکی سیاست پہ نگاہ رکھنا ہوگی اور ملک میں قیام امن و امان کو یقینی بنانے کے اقدامات کی بھی مانیٹرنگ کرنا ہوگی۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ میں خطاب کرنے کے لیے اس وقت جارہے ہیں کہ جب پاکستان نے 50 سال بعد سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پہ آواز بلند کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اراکین سلامتی کونسل کو اس مسئلے پر بریفنگ بھی دی جا چکی ہے۔

امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی دعوت پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ کیا تھا۔ وہ اپنے تین روزہ دورے پر جب واشنگٹن جانے کے لیے برطانیہ پہنچے تھے تو امریکی صدر کا خصوصی طیارہ انہیں لینے لندن آیا تھا۔

واشنگٹن ایئرپورٹ پر امریکی صدر ٹرومین نے اپنی پوری کابینہ کے ہمراہ پاکستانی وزیراعظم کا استقبال کیا تھا۔ ان کے اعزاز میں نیویارک میں پریڈ منعقد ہوئی تھی اور کولمبیا یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تھی۔ لیاقت علی خان نے امریکی ایوان نمائندگان سے بھی خطاب کیا تھا۔


متعلقہ خبریں