افغان امن معاہدہ: منسوخ ہو گیا لیکن کیوں؟ اندرونی کہانی منظر عام پر آگئی

کورونا سے مت ڈریں اور نہ اپنی زندگی پر حاوی ہونے دیں، صدر ٹرمپ

واشنگٹن: افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نویں دور سے وابستہ تمام امیدیں چند گھنٹے قبل اس وقت دم توڑ گئیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں اعلان کردیا ہے کہ مذاکرات کا جاری عمل منسوخ کردیا گیا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق امریکی صدر کی آج کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہونا تھیں جو منسوخ کردی گئی ہیں۔

افغان امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا؟ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مدمقابل

افغان صدر اشرف غنی کے حوالے سے جمعہ کے دن افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز نے اطلاع دی تھی کہ انہوں نے اپنا دورہ واشنگٹن ملتوی کردیا ہے۔

امریکی صدر نے  سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقاتیں منسوخ کردی ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے کابل میں ہونے والے حملوں کو قراردیا ہے۔

جیمزمیٹس عہدہ چھوڑ کر جاسکتے ہیں، ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کی سائٹ پر جاری کردہ پیغام میں کہا ہے کہ وہ طے شدہ ملاقاتوں کے لیے ہفتے کی شب واشنگٹن پہنچ رہے تھے ۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذاکرات کی معطلی کا فیصلہ طالبان کی جانب سے کابل حملے کے بعد کیا گیا جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ طالبان کی سے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق سامنے آیا ہے۔

افغان طالبان پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے صدرٹرمپ نے کہا کہ طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ان میں با مقصد بات چیت اور معاہدہ کرنے کی اہلیت نہیں ہے اور وہ سودے بازی میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

امریکہ کے صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر دریافت کیا کہ آخر طالبان مزید کتنے عشرے تک لڑنا چاہتے ہیں؟

دوحہ، قطر میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے گزشتہ دنوں نویں دور کے اختتام پر یہ امید بندھی تھی کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے طے پانے والے معاہدے کی توثیق کے بعد امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

افغانستان سے قبل از وقت فوجی انخلا غلطی ہوگی، جنرل مائیک مائلی

معاہدے کی کامیابی کی اطلاع خود مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے افغان نژاد سفارتکار زلمے خلیل زاد نے دی تھی لیکن پھر انہوں نے گرین ولیج میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد اپنا دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا۔ سفارتی ذرائع نے اس وقت امید ظاہر کی تھی اب یہ دورہ دو دن بعد ہو گا لیکن پھر امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کا یہ بیان سامنے آیا کہ معاہدے پر دستخط کے لیے وہ آمادہ نہیں ہیں۔

عالمی سیاسی مبصرین کا اس ضمن میں یہ بھی کہنا ہے کہ خود امریکی صدر افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کے حق میں ہیں لیکن امریکی پینٹاگون سمیت واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں نہیں ہے جس کی وجہ سے پہلے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا اور اس کے بعد بات مذاکراتی عمل کے خاتمے تک پہنچ گئی ہے۔

امریکی پینٹاگون کی جانب سے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت اس وقت بھی سامنے آئی تھی جب انہوں نے شام سے فوجی انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس وقت متعدد اعلیٰ امریکی حکام نے باقاعدہ استعفے بھی دے دیے تھے۔


متعلقہ خبریں