مذاکرات معطل کرنے کا نقصان امریکہ کو ہوگا، ترجمان طالبان

فائل فوٹو


کابل: ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات معطلی کے ردعمل میں کہا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہوگا۔

اتوار کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ  ہفتے تک طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات صحیح سمت میں جا رہے تھے اور  فریقین افغانوں کے درمیان مذاکرات پر متفق تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات معطلی سے مزید امریکی ہلاک ہوں گے۔

دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں خبریں آ رہی ہیں کہ طالبان کی شوریٰ نے اپنے مذاکراتی وفد کو بھی امریکہ جانے سے روک دیا ہے۔

مزید جانیں: افغان امن معاہدہ منسوخ ہو گیا لیکن کیوں؟ 

مذکورہ وفد نے آج امریکی ریاست کیمپ ڈیوڈ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کرنا تھیں۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مذاکراتی منسوخ کردیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی صدر نے مذاکرات منسوخ ہونے کا سبب کابل میں ہونے والے حملوں کو قراردیا۔

امریکی صدر نے یہ اعلان اس وقت کیا جب چند گھنٹے بعد افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا 9واں دور اختتام پذیر ہو چکا تھا۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذاکرات کی معطلی کا فیصلہ طالبان کی جانب سے کابل حملے کے بعد کیا گیا جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

قطر میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے نویں دور کے اختتام پر یہ امید تھی کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے طے پانے والے معاہدے کی توثیق کے بعد امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

معاہدے کی کامیابی کی اطلاع خود مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے افغان نژاد سفارتکار زلمے خلیل زاد نے دی تھی لیکن پھر انہوں نے گرین ولیج میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد اپنا دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا۔

سفارتی ذرائع نے اس وقت امید ظاہر کی تھی اب یہ دورہ دو دن بعد ہو گا لیکن پھر امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کا یہ بیان سامنے آیا کہ معاہدے پر دستخط کے لیے وہ آمادہ نہیں ہیں۔

عالمی سیاسی مبصرین کا اس ضمن میں یہ بھی کہنا ہے کہ خود امریکی صدر افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کے حق میں ہیں لیکن امریکی پینٹاگون سمیت واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں نہیں ہے جس کی وجہ سے پہلے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا اور اس کے بعد بات مذاکراتی عمل کے خاتمے تک پہنچ گئی ہے۔


متعلقہ خبریں