دوران ڈیوٹی پولیس اہلکاروں کے موبائل استعمال پر پابندی عائد

دوران ڈیوٹی پولیس اہلکاروں کے موبائل استعمال پر پابندی عائد

لاہور: لیڈی کانسٹیبل کا ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے کے بعد آئی جی پنجاب نے پولیس اہلکاروں کے ڈیوٹی  کے دوران موبائل استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس ضمن میں جاری مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ ایس ایچ او اور انچارج سے نچلے رینک کا پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران فون کا استعمال اور ویڈیو نہیں بنائے گا۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود اہلکار اگر کوئی اہلکار موبائل استعمال کرتا پایا گیا تو اسکے ساتھ انچارج کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

یاد رہے کچھ روز قبل لیڈی کانسٹیبل فائزہ نواز کو احمد مختار نامی وکیل نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا تھا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر مامور تھیں۔

اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس نے ایڈووکیٹ احمد مختار کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا تھا تاہم ملزم نے عدالت سے رجوع کر کے ضمانت پر رہائی حاصل کرلی تھی۔

اس حوالے سے گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کانسٹیبل فائزہ نے بتایا کہ وہ اس دن فیروز والا کچہری میں سکیورٹی پر مامور تھیں۔

اس دوران احمد مختار اور میرے ساتھی پولیس اہلکار کے درمیان مین گیٹ پر گاڑی کی غلط پارکنگ پر بحث ہوئی۔

اس بات پر احمد مختار نے جواب میں کہا ’تمھیں نہیں پتہ کہ میں وکیل ہوں۔‘

لیڈی کانسٹیبل نے بتایا ’چند لمحوں میں ہی ایڈووکیٹ احمد مختار اشتعال میں آگئے اور پولیس اہلکار کے ساتھ تلخ کلامی کی اور اسے دھکے دینا شروع کر دیا جس پر میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی آپ کس طرح بات کر رہے ہیں۔‘

’اس بات پر احمد مختار نے مجھے لاتیں اور تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔ وہاں مزید وکلا بھی جمع ہو گئے اور میرے ساتھ اہلکار کے بازو پیچھے پکڑ کر باندھ دیے جس وجہ سے وہ بھی میرے دفاع میں آگے نہیں بڑھ پایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے دیکھا کہ انھیں بچانے والا کوئی نہیں تو وہ ’اپنی جان بچانے کے لیے تھانے میں ڈی ایس پی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔‘

فائزہ نے مزید بتایا کہ ان کی شکایت پر ڈی ایس پی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ایڈووکیت احمد مختار کو گرفتار کر لیا۔

واقعے کے فوری بعد فائزہ نواز کی مدعیت میں پولیس نے ایڈووکیٹ احمد مختار کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

تاہم جو دفعات ملزم پر لگائی گئیں وہ قابل ضمانت تھیں جس کی وجہ سے احمد مختار کو رہائی مل گئی ۔

دوسری جانب ایف آئی آر میں ایک غلطی یہ تھی کہ ملزم کا نام احمد مختار کی جگہ ’احمد افتخار‘ لکھا گیا تھا۔

اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فائزہ کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں جانتی کہ وکیل کا نام غلط لکھنا انسانی غلطی ہے یا پھر کچھ اور۔‘

کانسٹیبل فائزہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں وکلا تنظیم کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

’تاریخ میں پہلے ایسا کھبی نہیں ہوا کہ ایک وکیل کو لیڈی کانسٹیبل نے ہتھکڑی لگائی ہو۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے نقصان ضرور پہنچائیں گے کیونکہ جھگڑے کے بعد مجھے احمد مختار کے ساتھیوں نے کہا تھا کہ ہم تمھیں مزہ چکھائیں گے۔‘

پولیس کی جانب سے فائزہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پہلے ہی فیروزوالا سے ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔

 

 

 


متعلقہ خبریں