امریکی صدر ٹرمپ کی دوربینی نگاہوں نے پاک بھارت تناؤ میں کمی دیکھ لی؟

امریکی صدر ٹرمپ کی دوربینی نگاہوں نے پاک بھارت تناؤ میں کمی دیکھ لی؟

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ دو ہفتے قبل دونوں ممالک کے درمیان زیادہ تناؤ تھا۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک مرتبہ پھر ثالثی کرنے کی پیشکش کی۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس تنازع کے حل میں دونوں ممالک کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

حیرت انگیز بات ہے کہ امریکی صدر کو جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی اس وقت دکھائی دے رہی ہے جب کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے۔

ٹرمپ نے قائد اعظم کے پیش کردہ ’دو قومی نظریے‘ کی سچائی کا اعتراف کرلیا

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کی منسوخی کا فیصلہ میں نے خود کیا اور اس ضمن میں کسی سے مشاورت بھی نہیں کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ طالبان کو کیمپ ڈیوڈ آنے کی دعوت دینا میرا ذاتی فیصلہ تھا اور ملاقات کی منسوخی بھی ان کا نجی فیصلہ تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات سے متعلق نائب صدر سمیت دیگر معاونین کے مشوروں کو نظر انداز کرنے سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعتاً افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے خواہش مند ہیں اور اسی وجہ سے ان کی ایما پر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تھا جو ایک سال تک دوحہ میں جاری رہا تھا لیکن چونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پینٹاگون مذاکرات کی حامی نہیں تھے اس لیے وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

امریکہ کے متعدد اعلیٰ افسران صدر ٹرمپ کی اسی طرح اس وقت بھی  مخالفت کی تھی جب انہوں نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔ اس وقت تو سیکریٹری دفاع جیمز میٹس سمیت کئی اعلیٰ حکام مستعفی بھی ہو گئے تھے۔ جیمز میٹس اس وقت امریکہ کے سیکریٹری دفاع تھے۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ حملے اور مذاکرات ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اب ’مردہ‘ قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن اب یہ کام پھر کسی مناسب وقت پر کیا جائے گا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں انہوں ںے کہا کہ امریکہ طویل عرصے سے افغانستان میں پولیس کا کردار ادا کر رہا ہے اور یہ ہمارے عظیم فوجیوں کا کام نہیں ہے. انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہم گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں اپنے دشمنوں کو پچھلے چار روز کے دوران زیادہ طاقت سے نشانہ بنارہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ میں مسئلہ کشمیر پرثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ خود وزیراعظم مودی نے ان سے اس ضمن میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیدیا

صدر ٹرمپ کے اس بیان پر بھارت میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا اور حزب اختلاف کی جاعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا تھا جس کے بعد بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کو ’جھوٹا‘ تک قرار دے کر ان کے مؤقف کی تردید کردی تھی۔

امریکی صدر نے گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان اور مودی دونوں میرے اچھے دوست ہیں اور حب الوطن بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرنے کی اپنی پیشکش پر قائم ہیں۔

عالمی سیاسی مبصرین کے نزدیک ماہ رواں کے اختتام پر جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نیویارک پہنچیں گے تو عین اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی وہاں ہوں گے تو دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں امریکی صدر کیا کردار ادا کرتے ہیں؟

افغان امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا؟ پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مدمقابل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحہ، قطر میں جاری مذاکرت کی منسوخی کا اعلان اس وقت کیا تھا جب افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد افغان عوام کو معاہدہ طے پانے کی نوید سنا چکے تھے۔ انہوں نے یہ نوید ایک ٹی وی انٹر ویو میں سنائی تھی جو افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کو دیا گیا تھا۔

افغان نشریاتی ادارے کے مطابق جس وقت امریکی مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے زلمے خلیل زاد افغان عوام کو فریقین کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کی خوشخبری دے رہے تھے عین اسی وقت کابل میں واقع گرین ولیج میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں تقریباً ڈیڑھ درجن افراد ہلاک اور 119 زخمی ہوگئے تھے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجیوں کو اگلے 135 دن میں واپس بلا لے گا تاہم یہ شرط بھی عائد کی گئی تھی کہ معاہدے پر عمل درآمد صدر ٹرمپ کی  جانب سے توثیق کے بعد ہی ہوگا۔


متعلقہ خبریں