’ڈونلڈ ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی میں کمی سے متعلق دعویٰ درست نہیں‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا پاکستان اور بھارت میں تناؤ میں کمی سے متعلق دعویٰ درست نہیں ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ ڈونلڈٹرمپ کے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں، مقبوضہ کشمیر میں حالات بہت خراب ہیں، بھارت نے مذہبی آزادیاں سلب کررکھی ہیں اس لیے دونوں ممالک کے درمیان حالات پہلے جیسے ہی ہیں۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب نے کہا کہ بھارت جنگی ماحول پیدا کرکے دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے ہٹانا چاہتا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ امریکی صدر کے بیان کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ دونوں ممالک کو جنگ سے باز رکھا جائے، اس حوالے سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برداری کا تمام شور انسانی حقوق کے مسئلے پر ہے لیکن سیاسی مسئلے پر کوئی بات نہیں کررہا جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

تجزیہ کار ناظر محمود نے کہا کہ امریکی صدر نے پہلے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن اسے بھارت نے مسترد کردیا، بھارت اس حوالے سے اسرائیل سے بھی آگے نکل چکا ہے کہ وہاں بھی اتنے عرصے کے لیے کبھی کرفیو نہیں رہا۔

تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈٹرمپ کچھ بھی کہے سکتے ہیں، اس حوالے سے اندرونی طور پر کشیدگی میں تھوڑی سی کمی آئی ہے لیکن بیرونی کشیدگی پہلے جیسی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ اس معاملے پر پاکستان کو عالمی سطح پر کوئی حمایت نہ ملے۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ بھارت کی عالمی سطح پر بدنامی ضرور ہوئی ہے لیکن بات اس حد تک نہیں پہنچی ہے کہ بھارت اپنے اقدامات واپس لے۔
عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ بھارت نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ہر پہلو پر غور کیا ہوگا۔ بیانات اور قراردادوں سے بھارت پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ معاشی مفادات کے باعث دنیا اٹھانے سے قاصر ہے۔

ناظر محمود کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کونسل کی جانب سے صورتحال پر تشویش کی اہمیت ضرورت ہے لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ہمیں دنیا کو دیکھنے سے پہلے اپنے دوست ممالک کو دیکھنا ہوگا کہ ان کا رویہ کیسا ہے۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ بھارت پر عالمی دباؤ جتنا ڈالا جارہا ہے اس سے بھارت کی بدنامی تو ہوسکتی ہیں لیکن یہ بھارت کے اقدامات واپس کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

بھارت کی جانب سے کھیل کو سیاست کے لیے استعمال کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں ناظر محمود کا کہنا تھا کہ بھارت کھیلوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن سری لنکن کھلاڑیوں کو منع کرنے کے حوالے سے کوئی تصدیق شدہ بات سامنے نہیں آئی ہے۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے غیرذمہ دارانہ کام کیا ہے اس سے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ بھارت اب سے نہیں بلکہ بہت عرصے سے پاکستان کو ہرمیدان میں تنہا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ بھارت کھیلوں کو سیاست کے لیے ہمیشہ سے استعمال کرتا آیا ہے۔ بھارتی سرمایہ کار سیاست اور کرکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھاسکیں۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ کھیل کو سیاست کے لیے استعمال کیا ہے، بھارت نے پی ایس ایل میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کا حصہ نہ بنانے کی بھی بات کی تھی اور اب بھی یہ کرنے کا یہی مقصد ہے۔

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ ہمیں بھارت سے اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ اسے جب بھی جس میدان میں بھی موقع ملا ہے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے احتجاج سے متعلق سوال کے جواب میں عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن سڑکوں کی سیاست میں اب تک کچھ اچھا نہیں کرسکی ہے، وہ زبانی کلامی طور پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہے لیکن وہ حکومت کے خاتمے یا نظام کو گرانے میں ان کے حصہ دار نہیں بنے گی۔

ضیغم خان نے کہا کہ جب تک حزب اختلاف کی تمام جماعتیں حکومت کے خلاف متحد نہیں ہو جاتیں حکومت کو خطرہ نہیں ہے۔
امجد شعیب کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت جس طرح کی سیاست کررہے ہیں اس میں بڑی سیاسی جماعتیں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتی کیونکہ پرامن احتجاج کا پہلے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ ہی اب نکل سکتا ہے۔

ناظر محمود نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سیاست میں اس وقت غیر متعلق ہوچکے ہیں، وہ حکومت کی شدت سے مخالفت کرکے دوبارہ سیاست میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کام میں دوسری جماعتوں کو اپنے لیے زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا اس لیے وہ غیرمشروط حمایت سے انکاری ہیں۔

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست میں اہمیت موجود ہے، اگر وہ اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو حکومت کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:’انسانی حقوق کونسل کو کشمیری عوام کی حالت زارپر فوری توجہ دینا ہوگی‘


متعلقہ خبریں