گگلی ماسٹر: ایک یاد ،ایک کہانی


سن اسی کی دہائی میں اگر کبھی کسی سپنر کو ماڈرن ڈے کرکٹر کا خطاب دیا جاتا تو ان کرکٹرز کی فہرست میں ایک نام عبدالقادر کا ضرور ہوتا. وہ محض اکیس سال کا تھا جب اس نے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔

دبلا پتلا سا، گھنگرالے بال اور منفرد سٹائل کا مالک عبدالقادرجب بھی گیند کرانے کریز پر پہنچتا تو ایک عہد ٹکٹکی لگائے بیٹھا یہ سوچا کرتا تھا کہ اب گگلی ہوگی یا پھر گیند گھومے گا ہی نہیں۔ مگر اکثروبیشتر گیند اس اندار سے پلٹا کھاتی تھی جیسے کسی نے کوئی جادو کردیا ہو۔

وہ عمران کا ساتھی، جاوید کا دوست، رمیض کا ٹیم میٹ، شعیب کا مداح، عمران طاہر کا استاد اور ان گنت غیرملکی ومقامی کرکٹرز کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ کسے معلوم تھا تاریخ کے پنوں کا سنہری باب خود ہی تاریخ میں سموجائیگا۔

آج کی یہ تحریر بھی اسی تاریخ ساز اور گگلی ماسٹر کے نام ہے جو کرکٹ کی دنیا کو اداس کرگیا ہے۔ تریسٹھ سالہ عبدالقادرمنوں مٹی تلے سوگیا مگر ان کی یادیں تن آور درخت کی کی طرح تروتازہ ہیں، ہوبہو ایسے جیسے کوئی آئینہ دار ہو۔

ویسے تو عبدالقادر عرف باؤ جی کا کرکٹ کا سفر انیس سو ستتر سے شروع ہوا مگر کیرئیر کو تقویت انگلینڈ کیخلاف سیریز سے ملی ۔حالانکہ اس دور میں انگلینڈ کی ٹیم کا طوطی بولتا تھا اور انہیں انہی کی سرزمین پر زیر کرنا کٹھن پہاڑ کی چوٹی کو عبور کرنے کے مترادف تھا مگرگگلی ماسٹر کی موجودگی میں پاکستان کے لیے یہ کام بہت آسان تھا۔

انیس سو ستاسی کے اوول ٹیسٹ میں قادر نے دس انگلش بیٹسمنوں کو پویلین کی راہ دیکھائی اور پھر اسی سال ہوم سیریزمیں گگلی ماسٹر نے تین ٹیسٹ میچوں میں تیس وکٹیں حاصل کرکے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرایا ۔

اس سیریز میں لاہور ٹیسٹ میں چھپن رنز دیکر نو وکٹیں حاصل کرنے کی ریکارڈ ساز کارکردگی بھی شامل ہے جو آج بھی قائم و دائم ہے۔

عبدالقادر کے ہوتے ہوئے پاکستان کرکٹ کھبی بھی ڈھلکی نہیں۔ وہ ہمیشہ حریف کھلاڑیوں کے لیے خطرے کا نشان رہا اور شائقین کرکٹ کی تفریح کا باعث بنے۔

انیس سو ستاسی میں ویسٹ انڈیز کیخلاف ورلڈکپ کا وہ تاریخی میچ بھی اسی کی ایک مثال ہے ۔ جہاں عبدالقادر کی جارحانہ بیٹنگ نے گرین شرٹس کو کالی آندھی کو زیر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انیس سو تراسی کا میلبرن ٹیسٹ بھی گگلی ماسٹر کی ماہرانہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

انیس سو چوراسی کا بینس اینڈ حیجز کپ میں قادر کی کارکردگی قابل دید تھی ۔۔۔ اسی دورے کے دوران عبدالقادر کے بولنگ اسٹائل کومنفرد گردانہ گیا اور ان کے سٹائل کو ایک فاسٹ باولر کے ایکشن سے تشیبح دی گئی۔

انہی کارکردگیوں کی بدولت لیجنڈ کرکٹر نے وہ نام کما لیا جو اس دور کا کوئی بھی رسٹ سپنر نہ کرپایا۔ آج ان کی وفات پر کئی نامور کھلاڑی ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔

وزیراعظم عمران خان اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھتے ہیں قادر ایک ذہین بولر تھا اگر اس دور میں ڈی آر ایس کا قانون ہوتا تو عبدالقادر کی وکٹیں بھی اتنی ہی ہوتی جتنی شین وارن کی ہیں۔

اسی طرح بھارتی لیگ سپنر بیشن سنگھ بیدی نے بھی ان کی تعریف کی ۔۔۔ کہا کہ بڑے دل کے مالک اور چھوٹے قد کے اچھلتے بولرکی سپن بولنگ کے لیے خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

سچن ٹنڈولکر، برائن لارا، ہربھجن سنگھ، انیل کمبلے اور سنجے منجریکر نے بھی انہیں خیراج عقیدت پیش کیا۔ وسیم اکرم نے لکھا کہ وہ جادوگر تھے انہوں نے مجھے دیکھ کرہی یہ کہہ دیا تھا کہ تم بیس سال کے لیے پاکستان کھیلو گے اور ایسے ہی ہوا۔

وقار یونس اور رمیض راجہ نے بھی عبدالقادر کی خدمات کو سلام پیش کیا۔ رمیض راجہ کے مطابق عبدالقادر نے بڑے بڑے بیٹسمینوں کو اپنی تباہ کن بولنگ سے کچل دیا ۔ مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں شارٹ لیگ پر ان کی بال پر فیلڈنگ کیا کرتا تھا۔

راولپنڈی ایکسپریس اور دنیا کے تیز ترین بولر نے تو یہاں تک کہاں کہ بطور چیف سیلکٹر عبدالقادر نے سیلکٹ کرکے قومی ٹیم میں کم بیک کے لیے بہت بڑا احسان کیا۔

عمران طاہر نے ٹوئٹ کیا کہ عبدالقادر ان کے لیے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے نہ صرف سپن بولنگ میں سدھار لانا میں مدد کی بلکہ عملی زندگی کے لیے بھی اہم مشورے دیے۔

 

عبدالقادر نے مخصوص مدت کے لیے کپتانی بھی کی ،چیف سیلکٹر بھی بنے اور ایک عرصے کے لیے کمنٹری بھی کی۔  لیجنڈ ٹیسٹ کرکٹر آج ہم میں نہیں رہے مگر کھیل کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی ۔

یہ بھی پڑھیے: گگلی ماسٹر عبدالقادر کی وفات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کا بیان

عبدالقادر پاکستان کا ایک اثاثے تھے اور کہیں نہ کہیں ایک اچھے انسان بھی تھے اور سب سے بڑی بات محب وطن پاکستانی تھے۔  چھوٹے سے گھر میں رہنے والے اس شاندار کرکٹر کی کہانی ویسے تو کئی پنوں پر درج کی جاسکتی ہے مگر آج کے لیے فقط اتنا ہی کہوں گا:

“بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رت ہی بدل گئی”

“ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا”


متعلقہ خبریں