آئی جی پنجاب کو لیگل نوٹس: موبائل فون کی بندش کس قانون کے تحت کی گئی؟

آئی جی پنجاب کو لیگل نوٹس: موبائل فون کی بندش کس قانون کے تحت کی گئی؟

لاہور: تھانوں میں کیمرے والا موبائل فون لے جانے پر پابندی کے خلاف آئی جی پنجاب کو لیگل نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق لیگل نوٹس شہری رانا نعمان نے مدثر چودھری ایڈووکیٹ کے توسط سے بھیجا ہے۔ بھیجے جانے والے لیگل نوٹس میں استفسار کیا گیا ہے کہ تھانوں میں کیمرے والا موبائل فون لے جانے پر پابندی کے حوالے سے آنے والی خبروں میں کتنی صداقت ہے؟

مدثر چودھری ایڈووکیٹ نے اپنے مؤکل کے توسط سے معلوم کیا ہے کہ اگرواقعتاً تھانوں میں کیمرے والا موبائل فون لے جانے میں پابندی عائد کی گئی ہے تو وہ کس قانون کے تحت لگائی گئی ہے؟

آئی جی پنجاب کو بھیجے جانے والے لیگل نوٹس میں معلوم کیا گیا ہے کہ تھانوں میں کیمرے والا موبائل فون لے جانے پر پابندی کا اطلاق صرف پولیس اہلکاروں پہ کیا گیا ہے اور یا کہ اس کی زد میں عام سائلین سمیت دیگر وہ افراد بھی آئیں گے جو تھانوں میں کسی بھی قسم کے کام کے لیے جائیں گے؟

رانا نعمان نے اپنے وکیل کے توسط سے بھیجے جانے والے لیگل نوٹس میں آئی جی پنجاب سے معلوم کیا ہے کہ عام شہریوں پر کیے جانے والے تشدد میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اوران کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جائے۔

خاتون پر تشدد کیس میں گرفتار پولیس افسر سمیت دیگر ملزمان جیل منتقل

لیگل نوٹس میں واضح طور پر مطالبہ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تھانوں میں قائم ٹارچر سیلوں کو فی الفور ختم کیا جائے۔ آئی جی سے اس کی بابت بھی دریافت کیا گیا ہے کہ پنجاب پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کو روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

رانا نعمان کی جانب سے آئی جی پنجاب کو بھیجے جانے والے لیگل نوٹس میں مدثر چودھری ایڈووکیٹ نے واضح کیا ہے کہ جواب نہ دینے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

پنجاب پولیس کا ایک اور کارنامہ، کرنٹ لگانے سمیت خاتون پر بدترین تشدد

آئی جی پنجاب کی جانب سے گزشتہ دنوں یہ ہدایات سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں پہ پابندی عائد کردی ہے کہ دوران ڈیوٹی وہ موبائل فونز کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ احکامات اس وقت سامنے آئے تھے جب پے در پے پنجاب پولیس کی سیاہ کاریاں شہہ سرخیوں کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونا شروع ہوئی تھیں کہ اس کے افسران و اہلکار دوران تفتیش نہ صرف بھیانک تشدد کرتے ہیں بلکہ عقوبت خانوں میں تشدد کرتے ہوئے مرد و خواتین کی تمیز بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

آئی جی کی اس ہدایت کی آڑ میں بعض تھانوں اور علاقوں سے یہ اطلاعات بھی ملنا شروع ہوگئی تھیں کہ عام شہریوں سے ان کے موبائل فونز بھی تھانوں کے استقبالیہ پہ رکھوائے جانے لگے ہیں۔

افسوسناک امر ہے کہ پنجاب پولیس کے سربراہ نے جاری تشدد روکنے کے حوالے سے واضح اقدامات اٹھانے کے بجائے پولیس کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے ثبوت منظر عام پر لانے والے موبائل فونز کے استعمال پر ہی پابندی عائد کردی تاکہ نہ وہ ہوں گے اور نہ ہی پنجاب پولیس کی سیاہ کاریاں منطر عام پر آئیں گی۔

ملک کی سول سوسائٹی کی جانب سے ان احکامات کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور عوام الناس میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

پنجاب پولیس کا خاتون پر مبینہ تشدد، سر کے بال کاٹ دیے

دلچسپ امر ہے کہ قانون کی پاسداری اور حکمرانی یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں تسلیم کی جانے والی امریکی، برطانوی اور فرانسیسی پولیس فورس کے افسران اور اہلکار اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں موبائل کیمرہ لازمی رکھتے ہیں تاکہ جب وہ شہریوں سے گفتگو کریں تو ہر لمحہ اور ہونے والی بات چیت ریکارڈ ہو۔


متعلقہ خبریں