پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے صلاح الدین تشدد کیس  میں اہم پیش رفت


لاہور:اے ٹی ایم مشینوں سے کارڈی کی چوری کے معاملے پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے صلاح الدین تشدد کیس  میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ مقتول کے والد بھائی اور کزن نے تحقیقاتی کمیٹی کو بیان ریکارڈ کرادیئے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہناہے کہ صلاح الدین کے والد افضال کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

اس ضمن میں قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی میں توسیع کرکے مزیدپولیس افسران کوبھی شامل کرلیاگیاہے۔ ڈی ایس پی اقبال شاہ، ڈی ایس پی خالد ابوبکر،انسپکٹر رانا محمد صدیق کمیٹی میں شامل کئے گئے ہیں۔

پولیس کی خصوصی تحقیقاتی کمیٹی آج رحیم یارخان تحقیقات کےلے جائے گی اور تھانے میں موجود اہلکاروں کے بیان ریکارڈ کریگی۔

تحقیقاتی کمیٹی حوالات میں  صلاح الدین کے ساتھ رہنے والے قیدیوں کے بیان بھی قلم بند کریگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سے پیوستہ روز صلاح الدین کے والد محمد افضال نے تفتیش تبدیل کرنے کےلیے درخواست کی تھی۔ صلاح الدین کے والد کی درخواست پر تفتیش رحیم یارخان سے لاہور منتقل کی گئی ہے۔

صلاح الدین کے والد نے اپنے بیٹے کے پہلے  پوسٹمارٹم پرعدم اعتماد کا اظہارکرتےہوئےجوڈیشنل مجسٹریٹ رحیم یارخان کے پاس بھی درخواست  دائر کر رکھی ہے  جس میں  قبر کشائی کی استدعا کی گئی ہے۔

رحیم یار خان پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والے صلاح الدین کے والد نےاپنی درخواست میں استدعا کی ہے کہ  صوبائی میڈیکل بورڈ اسکے بیٹے کی نعش پر تشدد کے نشانات دوبارہ  نوٹ کرکے اپنی رپورٹ دے۔

درخواست گزار محمد افضال نے اپنی درخواست میں کہاہے کہ پوسٹمارٹم کے وقت اس کے بیٹے کے جسم پر لگنے والی  چوٹوں کی دانستہ  نشاندہی نہیں کی گئی ۔ 

درخواست اسامہ گھمن ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ صلاح الدین کے والد محمد افضال نے سات ستمبر کو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس موقع پر محمد افضال کا کہنا تھا  کہ محکمہ پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہیں وہ صلاح الدین جیسے تمام معصوم اور بے گناہوں کو بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ کیا کہ صلاح الدین کی قبرکشائی کی جائے تاکہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کرکے حقائق سامنے لائے جاسکیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے بیٹے کے قتل میں ملوث ایس پی حبیب کو معطل کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

وزیر اعلی پنجاب نے صلاح الدین کے والد کو شفاف عدالتی تحقیقات کروانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

واضح رہے کہ پولیس نے صلاح الدین کو اے ٹی ایم توڑنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو 31 اگست کی شب پولیس حراست میں دم توڑ گیا۔ صلاح الدین کے جسم پر تشدد ثابت ہونے کے بعد ایس ایچ او، تفتیشی افسر اور اے ایس آئی سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

ڈی پی او رحیم یار خان نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ٹیم بھی تشکیل دی تھی۔

ابتدا میں پولیس صلاح الدین پر تشدد کے الزام کو مسترد کرتی رہی بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد آر پی او بہاولپور نے بیان دیا کہ مقتول کے جسم پر تشدد کے کچھ نشانات پائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں صلاح الدین کی ہلاکت: ملزمان کا صحت جرم سے انکار، عبوری ضمانت منظور

واقعے پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب نے نوٹس لیا تھا۔ مقدمہ میں گرفتار تینوں پولیس افسران نے عدالت سے 13 ستمبر تک عبوری ضمانت حاصل کررکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صلاح الدین کے والد نے بیٹے کی قبر کشائی کے لئے درخواست دائر کردی


متعلقہ خبریں