کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو فوری ردعمل دینا چاہیے تھا، حسین ہارون


کراچی: پاکستان کے سابق وزیر خارجہ حسین ہارون نے کہا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر بہت دیر کر دی ہے پاکستان کو فوری ردعمل دینا چاہیے تھا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ حسین ہارون نے کہا کہ میں تو بہت پہلے سے کہہ رہا تھا پاکستان کو تیار رہنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کے ارادے درست نہیں تھے۔ بھارتی انتخابات کے موقع پر عمران خان کے مودی کی حمایت میں بیان ان کی غلط فہمی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے کشمیر کا سفیر بننے ک اعلان کر رکھا ہے لیکن ہمیں اپنی حکمت عمل پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ کارآمد بھی ہے یا نہیں۔

حسین ہارون نے کہا کہ بھارتی عزائم کافی عرصے سے نظر آ رہے تھے اور ان کے بیانات سے لگ رہا تھا کہ وہ تیاری کر رہے ہیں لیکن اس حوالے سے پاکستان کی کوئی تیار نظر نہیں آ رہی تھی اور پاکستان اب بھی تیار نظر نہیں آ رہا۔ حکومت پہلے یہ تو طے کر لے کہ اس نے کرنا کیا ہے ؟

سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو طالبان امریکہ مذاکرات میں کردار ادا کرنے سے قبل یہ شرط رکھنی چاہیے تھی کہ وہ پہلے آپ پر سے ایف اے ٹی ایف کی سختیوں کو ختم کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا گلا پھندے میں آیا ہوا ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ معاملے پر سخت اقدامات کرے تاکہ بھارت کے پاس کوئی جواز نہ رہے۔

حسین ہارون نے کہا کہ دنیا عمران خان کو پہلے سے جانتی ہے اور وہ یورپ اور امریکی میں جانا پہچانا برانڈ ہے لیکن کیا انہوں نے اپنی شہرت کا فائدہ اٹھایا ؟ عمران خان اگر سفیر بن کر نکل پڑیں گے تو پاکستان کو کون چلائے گا ؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی جارحیت کا فوری جواب دینا چاہیے تھا لیکن پاکستان نے بہت دیر کر دی اور جوں جوں معاملے میں تاخیر ہوتی رہے گی معاملہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

پروگرام میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ظفر ہلالی نے کہا کہ بھارت اب جو کر رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ یہ روایتی ڈپلومیسی نہیں ہے۔ بھارت یہ کہتا ہے اس کا اگلا ہدف آزاد کشمیر ہو گا لیکن پاکستان کیا کر رہا ہے۔ پاکستان بیرونی دنیا پر دباؤ ڈالے کہ بھارت کو پیچھے ہٹایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت تو اب یہ کہتا ہے پاکستان سے صرف آزاد کشمیر پر ہی بات ہو گی کہ وہ بھی ہمیں واپس کیا جائے۔ اب روایتی سفارتکاری سے کام نہیں چلے گا۔

سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے کہا کہ پاکستان کو روایتی سفارتکاری کے علاوہ دیگر پہلوؤں کا بھی سہارا لینے کی ضرورت ہے اور ہمیں دیگر شعبوں میں بھی مہارت حاصل کرنی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی جانب سے کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور پہلی بار اقوام متحدہ میں مؤثر کردار ادا کیا گیا جبکہ ہندوستان کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اسے بھی دنیا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔

جاوید جبار نے کہا کہ پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر شناخت منفی ہے جو انتہائی زیادتی ہے کیونکہ پاکستان کی قوم انتہا پسند نہیں ہے۔ ہم نے ذرائع ابلاغ کا درست استعمال نہیں کیا۔ ہمیں پاکستانی کی حقیقت دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

سابق سفیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری کبھی بھی اچھی نہیں رہی جبکہ ہمارے مقابلہ میں بھارتی سفارتکاری زیادہ بہتر ہے۔ پاکستان سفارتکاری کے ذریعے مودی کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے جس میں ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے سامنے حقیقت کو لائے لیکن جب تک آپ کو شملہ معاہدہ ہی معلوم نہیں ہو گا تو آپ لوگوں کو کیا بتائیں گے ؟

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ یہ جنگ مفادات کی ہے اور جن کی مفادات بھارت کے ساتھ ہیں وہ کبھی پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ پاکستان کو اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ سب اپنے مفادات کی خاطر سامنے آئیں گے۔

ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ کی میناکشی گنگولی نے کہا کہ کشمیر کے حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں لیکن اب بھی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ 4 ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں سے تقریبا 3 ہزار کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم حریت رہنماؤں سمیت ایک ہزار کے قریب افراد اب بھی گرفتار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج سب کا حق ہے اور اسے نہیں روکنا چاہیے تاہم پر تشدد واقعات کے ہم بھی خلاف ہیں۔ پیلٹ گن کا استعمال شہریوں پر کسی صورت درست نہیں ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو سزا دینے کا حق کسی صورت نہیں ہے انہیں صرف گرفتاری کا حق ہے اور سزا سنانے کا حق صرف عدالت کے پاس ہے۔

مینا کشی نے کہا کہ کشمیریوں کی آواز کو مکمل طور پر دبا دیا گیا ہے اور دنیا انہیں سننے سے قاصر ہے۔ بھارت کشمیر میں جاری ظلم و تشدد کو ختم کرے۔


متعلقہ خبریں