طالبان افغان امن عمل کو جاری رکھنے کے لیے متحرک


ماسکو: طالبان امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے ماسکو میں روسی حکام سے ملاقات کی ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق قطر میں طالبان کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان کے ایک وفد کی روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف سے 13 ستمبر کو ملاقات ہوئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طالبان کے وفد اور ضمیر کابلوف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں گفتگو کا محور ’افغان امن عمل میں ہونے والی پیشرفت‘ تھی۔

دوسری جانب افغان اسلامک پریس نے رپورٹ کیا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی ملاقات میں طالبان کے وفد کی سربراہی شیر محمد عباس ستانکزئی نے کی۔ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی طالبان کے وفد کی سبراہی ستانکزئی کے سپرد ہی تھی۔

افغان اسلامک پریس کے مطابق طالبان کی جانب سے روسی نمائندہ خصوصی سے ملاقات کے لیے بھیجے گئے وفد میں شاہین اور قاری دین محمد حنیف بھی شامل تھے۔

طالبان کے وفد کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے 13 ستمبر کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان امریکہ سے مذاکرات جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن اگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے تو ہمارے جنگجو 100 سال لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

واضح رہے کہ طالبان کی روسی نمائندہ خصوصی سے ملاقات اس صورتحال میں ہوئی جب کچھ ہی روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8 ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والے طالبان اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقاتوں کو منسوخ کردیا۔

ساتھ ہی ایک عرصے تک افغان امن عمل کے لیے جاری رہنے والے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو بھی منجمد کر دیا گیا۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان نے قطر میں نو فریق کے مذاکرات کے بعد ، افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور جنگ بندی کے ساتھ ساتھ بین الملکی امن مذاکرات کے آغاز کے بارے میں ایک مسودہ دستاویز پر بھی اتفاق کیا۔

امریکی صدر نے یہ اعلان اس وقت کیا جب چند گھنٹے بعد افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا 9واں دور شروع ہونے والا تھا۔

امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو “مردہ” سمجھتے ہیں۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مذاکرات کی معطلی کا فیصلہ طالبان کی جانب سے کابل حملے کے بعد کیا گیا جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

قطر میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے نویں دور کے اختتام پر یہ امید تھی کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے طے پانے والے معاہدے کی توثیق کے بعد امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔


متعلقہ خبریں