شمالی کوریا کے خلاف امریکی پابندیوں نے دنیا کو تقسیم کردیا


واشنگٹن: امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تو چین اور روس نے اعلانیہ مخالفت کا عندیہ دے دیا۔ عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق شام ،ترکی اور ایران کے بعد عالمی طاقتوں کی دوسری بڑی تقسیم کا براہ راست فائدہ پیانگ یانگ کو پہنچ سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان سے شمالی کوریا کے 50 بحری جہازوں اور بحری ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دلچسپ امر ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ایک فرد اور 27 کمپنیوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے ان میں سے صرف 16شمالی کوریا میں رجسٹرڈ ہیں۔

پابندیوں کی زد میں آنے والی پانچ کمپنیاں ہانگ کانگ میں رجسٹرڈ ہیں جب کہ دو چین، دو تائیوان، ایک سنگاپور اور ایک پانامہ میں رجسٹرڈ ہے۔

صدر ٹرمپ نے  پریس کانفرنس میں باقاعدہ خبردار کیا کہ اگر نئی پابندیوں کے نتائج سامنے نہیں آتے تو ہم دوسرے مرحلے میں جائیں گے جو دنیا کے لئے بدقسمتی ہو گی۔

روس کے صدر پیوٹن نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر شمالی کوریا کے مسئلے کا سفارتی حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ ایک عالمی آفت بن سکتا ہے۔

چین نے بھی امریکی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیانگ یانگ پر دبائو ڈالنے کے خلاف مزاحمت کرے گا جب کہ شمالی کوریا نے اعلان کو جنگی اقدام قرار دیا ہے۔

امریکی پالیسی ساز اعلان کردہ نئی پابندیوں کے ذریعے شمالی کوریا پر دبائو بڑھا کر اس کے جوہری پروگرام کے لئے دستیاب وسائل ختم کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر نے بھی اسے باغی ملک قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر نئی پابندیاں بارآور ثابت نہیں ہوتیں تو ہم دوسرے مرحلے پر چلے جائیں گے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔

شمالی کوریا اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے اور طویل رینج کے ایسے بیلسٹک میزائل کا بھی تجربہ کرچکا ہے جو امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

ماسکو اور بیجنگ کی اعلانیہ مخالفت کو عالمی سیاسی و اقتصادی ماہرین کی توجہ اس لئے بھی حاصل ہوئی ہے کہ امریکا اس سے قبل بشارالاسد کے معاملے پر پیوٹن کی جانب سے کی جانے والی مداخلت پر ہزیمت کا سامنا کرچکا ہے۔

ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت جس کو صدر رجب طیب اردگان گولن کی حمایت یافتہ قرار دیتے ہیں اور مبصرین پوشیدہ امریکی حمایت کا شاخسانہ بتاتے ہیں وہ بھی بد ترین ناکامی سے دوچارہوئی تھی۔

ایران میں دو ماہ قبل حکومت مخالف تحریک کو بھی امریکا کی جانب سے حمایت کا اعلان سامنے آنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد طاقت کے مختلف عالمی مراکز میں گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی ناکامی امریکا کا مقدر ٹھہرے گی یا وہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہے گا؟


متعلقہ خبریں