عمران خان بتائیں وہ اپنے کن کن دوستوں کو نواز رہے ہیں؟ رؤف کلاسرا


اسلام آباد: سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت بھی اپنے قریبی افراد کو نوازنے میں مصروف ہے. عمران خان بتائیں ان کے کس دوست نے 78 ارب روپے دینا ہیں؟

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں میزبان محمد مالک کے ساتھ بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ارشد شریف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت میں آنے سے قبل بتا دیا تھا کہ ہم کیا کیا کام کریں گے جسے دیکھ کر لوگوں نے سمجھ لیا کہ واقعی تبدیلی آ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے صحافیوں سے 100 روز مانگے تھے کہ ہم پر تنقید نہ کرنا ہم سب درست کر لیں گے لیکن کچھ نہیں ہوا پھر تین مہینہ مانگ لیے اور اس میں بھی کچھ نہیں ہوا۔ بات 6 ماہ تک چلی گئی اور صحافیوں کی جانب سے کوئی سوال نہیں کیے گئے۔

ارشد شریف نے کہا کہ حکومت ایک سال بعد بھی کچھ نہیں کر سکی اور اب بھی مشورے لیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسی بھی کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور حکومت کی جمہوریت میں وزیر اعظم اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے ہاتھ ہی نہیں ملاتے۔ حکومت اپنے ہی کیے گئے دعوؤں کے خلاف کام کر رہی ہے اور اپنے ہی دوستوں کو اربوں روپے کے ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔ 21 ٹاسک فورس بنا دی گئیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل رہا۔

ارشد شریف نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں اتنا بڑا ہاتھ نہیں مارا تھا جتنا بڑا ہاتھ موجودہ حکومت 416 ارب روپے معاف کر کے مارنے جا رہی تھی۔ کاروباری افراد کا حکومت پر اب کوئی بھروسہ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ تو بار بار یوٹرن لے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزرا اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر دوسرے اداروں میں ہاتھ مار رہے ہوتے ہیں۔ یہ کسی کو نظر نہیں آ رہا۔ علی زیدی سے اپنی وزارت سنبھالی نہیں جا رہی اور وہ کبھی ایل این جی میں گھسے ہوئے ہیں اور کبھی کراچی کا کچرا اٹھا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی نے کہا کہ مالم جبہ اراضی اسکینڈل میں حکومتی رہنما پرویز خٹک سمیت دیگر کے ریفرنس میں نیب کی جانب سے کلین چٹ ملنے جا رہی ہے اور اس معاملے کو دبا دیا جائے گا۔ نیب کو حکومتی عہدیداروں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ذلفی بخاری کے خلاف منی لانڈرنگ کی سوا سال قبل تحقیقات شروع ہوئی تھیں اسے ختم کرنے کے لیے نیب پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ کیس بند کیا جائے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ہم پر لگائے گئے الزامات ہمارے لیے میڈلز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم حکومت کی ناکامیوں کو سامنے لاتے ہیں ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان پوری قوم کو بتائیں کہ ان کے کس دوست نے حکومت کے 78 ارب روپے دینے ہیں اور جسے عمران خان معاف کرانا چاہتے ہیں جبکہ ان کے دوست ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔

رؤف کلاسرا نے کہا کہ عمران خان کو ان کے مشیر ہی ڈبو رہے ہیں ورنہ انہوں نے تو 416 ارب روپے معاف کر دیے تھے جس پر ہم نے ہی آواز اٹھائی۔ جس کا فیصلہ عمران خان نے واپس لینے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ریفارمز کا لفظ فینسی جیسا ہے۔ حکومت نے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ ریفارمز کا لفظ ان پر اچھا نہیں لگتا۔

سینیئر صحافی نے کہا کہ حکومت کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ کس کس کے تبادلے کرنے ہیں اور کس کو کدھر لگانا ہے۔ عمران خان کی کسی تجویز کے خلاف بھی کوئی بول دے تو وہ انہیں اچھا نہیں لگتا۔ موجودہ حکومت میں سنجیدگی ہی نظر نہیں آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عاطف رئیس کو پشاور میٹرو کا ٹھیکہ دیا گیا جو علی زیدی کے دوست ہیں۔ ان کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمات موجود ہیں لیکن کسی نے نہیں پوچھا۔ جن کے خلاف اسکینڈلز موجود ہیں ایف آئی اے کے مقدمات ہیں انہیں ہی عہدے دیے جا رہے ہیں۔

رؤف کلاسرا نے کہا کہ جب ہم عوام کے سامنے حقیقت لاتے ہیں تو ہمیں گینگ قرار دے کر پروپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے۔ برطانوی شہریت یافتہ ذلفی بخاری ہماری کابینہ میں موجود ہوتا ہے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹے کی کوشش ہو رہی ہے۔

پروگرام کے میزبان محمد مالک نے کہا کہ حکومت نے ہم پر الزام لگایا ہے کہ 5 کا ٹولہ ہم پر تنقید کرتا ہے لیکن میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے کسی پر کرپشن کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کا چیئرمین بورڈ فائنل کرتا ہے لیکن یہاں تو بورڈ بنا ہی نہیں اور اسٹیل مل کا چیئرمین لگا دیا گیا۔

محمد مالک نے کہا کہ وزارت کامرس ڈویژن اور ایف بی آر کے درمیان کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے۔ دو وزرا اور دو محکموں کی لڑائی کی وجہ سے پورا ملک جمود میں آ گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موجووہ حکومت نے 21 ٹاسک فورس اور مختلف کمیٹیاں بنائیں لیکن آج تک ان کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ ان ٹاسک فورس اور کمیٹیوں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں