پیپلز پارٹی نے سندھ میں معاشی دہشتگردی مچائی ہوئی ہے، امین الحق


کراچی: ایم کیو ایم رہنما امین الحق نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں معاشی دہشت گردی مچائی ہوئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے کبھی کراچی میں ترقیاتی کام نہیں کرائے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان نے کہا کہ ہم فروغ نسیم کے اس حد تک شکر گزار ہیں کہ ان کی وجہ سے آج کراچی بہت زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال میں کراچی میں بہتری آئی ہے لیکن پانی، سیوریج، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر کئی مسائل بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی کی کچھ سڑکوں کو سامنے رکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کراچی کا انفرا اسٹریکچر بہتر ہوا ہے۔

فہیم الزمان نے کہا کہ جب تک کراچی کے میونسپل سیٹ اپ کو بہتر نہیں کیا جائے گا بہتری نہیں آئی گی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم تعصب کی بنیاد پر زندہ ہو گی لیکن پیپلز پارٹی نے کبھی تعصب کا معاملہ کھڑا نہیں کیا۔ بحریہ ٹاؤن کی وجہ سے 44 گاؤں متاثر ہوئے لیکن پیپلز پارٹی یا کسی اور نے احتجاج نہیں کیا۔

فہیم الزمان نے کہا کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کر دیا جائے تو ٹریفک کا دباؤ خود بخود کم ہو جائے گا۔ پل بنانے اور سڑکیں بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب تک ہماری ترجیحات درست نہیں ہوں گی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں معاشی دہشتگردی مچائی ہوئی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے نوجوانوں کو نوکریوں سے محروم رکھا گیا اور نوکریاں اندرون سندھ تقسیم کر دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ 12 سالوں سے اسمبلیوں میں آوازیں اٹھاتے رہے، پیپلز پارٹی کی منتیں کرتے رہے کہ سندھ میں بھی ترقیاتی کام کرا لیے جائیں۔

امین الحق نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس جب بھی کراچی کی حکومت اختیارات کے ساتھ آئی ہے ایم کیو ایم نے بہت زیادہ کام کیے ہیں۔ سندھ حکومت جب بھی پیپلز پارٹی کے پاس آتی ہے کراچی کے ترقیاتی کام کم ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ سے 800 ارب روپے سالانہ ملتے ہیں جسے منصفانہ طور پر اضلاع میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ 95 فیصد پیسہ کراچی سے جمع کیا جاتا ہے لیکن شہر قائد میں پیسہ خرچ نہیں کیا جاتا۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ کراچی کے منتخب نمائندوں کو اختیار دیا جانا چاہیے۔ اگر اختیارات ہی نہیں دیے جائیں گے تو کام کیسے ہو گا۔ سندھ حکومت نے ہمیشہ تعصب کی بنیاد پر کراچی کی ذمہ داری نہیں لی اور قانون کے ذریعے کراچی کے منتخب نمائندوں سے اختیارات بھی لے لیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان بھی ترقی کرے گا۔ کراچی میں جتنا لگائیں گے وہ کئی گنا زیادہ ہو کر ملے گا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے کہا کہ کسی کو بدعنوان کہہ دینا مناسب نہیں ہے اس لیے قانون موجود ہے اس کا سہارا لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 149 مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کراچی کے انفرا اسٹریکچر میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے، ہم کسی صوبے سے وسائل نہیں چاہتے لیکن ایمانداری سے کراچی کو اس کا حق دینا چاہیے۔

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ کسی بھی قانون میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے جس کے لیے سندھ اسمبلی سے قانون پاس کرانے کا راستہ موجود ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کو آمریت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اپنے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ بھر کے اضلاع میں مقامی حکومتیں موجود ہیں اور سب جگہ ایک جیسا ہی معاملہ ہے۔ سیاسی جماعتیں مل جل کر مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ صرف اختیارات پر ہی نہیں کام پر بھی بات کرنی چاہیے۔

تاج حیدر نے کہا کہ کراچی کی مقامی حکومت کے پاس جو اختیارات ہیں اسے وہ پورا کریں سندھ حکومت اپنے دائرہ اختیارات میں کام کر رہی ہے۔ اگر کسی کو تعاون نہیں مل رہا تو بھی کام تو جاری رہ سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کہا جا رہا ہے جب پورے اختیارات ملیں گے تو کام ہو گا۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیا نے کہا کہ کراچی اور اس کے مسائل صرف خبروں میں ہیں اس کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں مل کر نہیں بیٹھیں گی اور مسائل کا حل نہیں نکالیں گی کراچی ایسے ہی چلتا رہے گا۔


متعلقہ خبریں