مریم نواز کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا

وزیر اعظم عوام میں نکلے تو شہر میں کرفیو نہیں لگا ہوتا، مریم نواز

فائل فوٹو


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پارٹی کی نائب صدارت کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل دن گیارہ بجے سنایا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنرسردار محمد رضا  کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پرسماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل حسن مان  نے الیکشن کمیشن کو نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ واضح طور پر کہ چکی ہے کہ نااہل، سزا یافتہ شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا۔ جس پر ممبر خیبر پختونخواہ ارشاد قیصرنے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا فیصلہ الیکشن ایکٹ کے نافذ ہونے سے پہلے کا ہے جس میں نااہل سزا یافتہ شخص پر پارٹی صدارت یا عہدہ رکھنے کی ممانعت نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ کی شق 203 کو آرٹیکل 62 ، 63 اور 63 اے کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا کہا ہے، الیکشن ایکٹ کی شق 203 پارٹی عہدہ سے متعلق ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر رائے حسن نواز کو انہیں گراؤنڈز پر نااہل کرچکا ہے۔  مریم نواز سزا یافتہ ہیں پارٹی عہدہ رکھنے کےلئے اہل نہیں۔

اس موقع پرن لیگ کے صدر شہباز شریف کے وکیل جہانگیر جدون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ن لیگ انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں درخواست گذار کا متاثر فریق نہ ہونے پر کیس خارج کرچکا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ اُس کیس میں پارٹی الیکشن،  یہاں عہدہ اور شخصیت چیلنج ہوئی ہے آپ کی یہ دلیل درست نہیں، کیا مریم نواز کے نائب صدارت کےعہدہ کے لئے الیکشن ہوا؟

جہانگیر جدون نے الیکشن کمیشن کو جواب میں کہا کہ مریم نواز کو تعینات کیا گیا ان کےعہدہ کے لئے کوئی انتخابات نہیں کئے گئے، ن لیگ کے آئین کے مطابق نائب صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں صرف علامتی عہدہ ہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن ایکٹ میں سزا یافتہ شخص پر پارٹی عہدہ رکھنے کی کوئی پابندی نہیں، پرویز مشرف دور میں سزا یافتہ شخص پر پارٹی عہدہ رکھنے پر پابندی تھی۔ مریم نواز کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست ناقابل سماعت اور بدنیتی پر مشتمل ہے۔

انہوں نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن مریم نواز کے خلاف درخواست خارج کرے۔

اس قبل ہونے والی سماعتوں میں مریم نواز کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن نے آج انہیں ہر حال میں پیش ہونے کی ہدایت کررکھی ہے۔

واضح رہے الیکشن کمیشن نے مریم نواز کے وکیل سے آرٹیکل 62،63 کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متعلق دلائل طلب کر رکھےتھے۔

یاد رہے  مریم نواز کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ  نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل میں کہا تھا کہ ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت پارٹی نائب صدر کا عہدہ چیلنج ہو۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ن لیگ نے تاحال مریم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہیں جمع کرایا،ن لیگ کے ٹوئٹر اکائونٹ پر تعیناتی سے آگاہ کیا گیا۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹویٹر آخر ہوتا کیا ہے؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل نے کہا کہ ٹوئٹر سوشل میڈیاویب سائٹ  ہے جس پر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا ٹویٹر قابل قبول شواہد ہے؟ سوشل میڈیا کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل حسن مان نے کہا کہ اب تو سوشل میڈیا پر طلاق بھی ہو جاتی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وٹس ایپ اور ایس ایم ایس تو قابل قبول شہادت ہے ،ٹوئٹر کے حوالے سے باضابطہ قانون ہے تو دکھائیں۔

وکیل حسن مان نے کہا کہ مریم نواز نیب عدالت سے سزا یافتہ ہیں ۔تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی سزا معطل کر دی ہے۔

اس پر ممبر الیکشن کمیشن نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کی سزا پر عملدرآمد معطل ہوا سزا معطل نہیں ہوئی۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سزا معطل کرنے سے بہتر ہے عدالتیں بری کر دیا کریں۔ یہ کونسا قانون ہے کہ اپیل میں سزا ہی معطل کر دی جائے۔


متعلقہ خبریں