مودی حکومت کا سپریم کورٹ سے کھلواڑ: صحافی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

کشمیر:پاکستانی وکلا نے بھارتی سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کرلی

نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو احکامات دیے ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو کشمیر میں معمولات زندگی بحال کیے جائیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق ملکی آئین کی شق 370 کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف بھارت رنجن گوگوئی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت عظمیٰ جموں و کشمیر کی پابندیوں پر حکم جاری نہیں کرسکتی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر کاروبار زندگی بحال کیا جائے۔

کشمیر میں کرفیو کا 42 واں دن: امریکی صدارتی امیدواران بھی بول پڑے

بھارتی عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو وہ خود بھی جموں و کشمیر دورہ کریں گے۔

حیرت انگیز امر ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ مرکزی حکومت کو احکامات دے رہی ہے کہ کشمیر میں معمولات زندگی ترجیحی بنیادوں پر بحال کیے جائیں جب کہ اس نے جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ وہ گزشتہ پانچ اگست سے سری نگر میں اپنے گھر میں نظر بند تھے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق انہیں صرف 12 دن کے لیے سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے لیکن ضرورت پڑنے پراس میں تین ماہ کی توسیع کردی جائے گی۔

الجزیرہ کی نمائندہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کیا

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق فاروق عبداللہ کی گرفتاری پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کی گئی ہے۔ پی ایس اے کو بھارت میں کالا یا سیاہ قانون کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے تحت مرکزی حکومت کو یہ حق و اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص پر اس کا اطلاق کرکے اسے آئندہ دو سال تک گرفتار رکھ سکتی ہے۔

سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق اس وقت کیا گیا ہے کہ جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ وائیکو کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر مرکزی حکومت اور کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کو نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں۔

تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ وائیکو نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ فاروق عبداللہ کو ایک ایسے سیمینار میں شرکت کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جو وہ منعقد کررہے ہیں۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے دائر درخواست کی سماعت کے لیے 30 ستمبر کی تاریخ مختص کررکھی ہے۔

بھارتی حکومت اس دوران مذکورہ شخص کو کسی بھی قسم کی قانونی امداد نہ پہنچنے دے گی اور نہ ہی اسے ضرورت ہے کہ وہ اسے کسی بھی عدالت میں پیش کرے۔

مقبوضہ کشمیر سے گزشتہ دنوں موصول ہونے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ گرفتار کیے جانے والے ساڑھے چار ہزار سے زائد مظلوم کشمیریوں پر اس سیاہ قانون کا اطلاق کیا گیا ہے۔

بھارت کی ممتاز خاتون صحافی برکھا دت نے فاروق عبداللہ پرپی ایس اے لگائے جانے کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ 80 سال سے زیادہ عمر کے فاروق عبداللہ پر پی ایس اے لگانا صریحاً احمقانہ ہے۔ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ انہوں نے کون سا قانون توڑا ہے؟

‘مقبوضہ کشمیر پر حملہ آزاد کشمیر اور پاکستان پر حملہ ہے’

ممتاز صحافی نے خبردار کیا کہ آپ جتنا بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو سزا دیں گے، آپ اتنا ہی انتہا پسندی اور شدت پسندوں کو تقویت پہنچائیں گے۔

نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے اور فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ پہلے ہی دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ پابند سلاسل ہیں۔

بھارت کی سرکاری خبررساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹن ایس اے بوبڈے اور ایس اے نذیر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ چونکہ وادی میں شٹ ڈاؤن وادی ہے اس لیے اس معاملے کو جموں کشمیر ہائی کورٹ خود دیکھ سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق عدالت میں سماعت کے دوران جب اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے حکومتی اقدامات گنوانے شروع کیے توسپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جو کچھ بتا رہے ہیں وہ حلف نامے پہ لکھ کر عدالت میں جمع کرادیں۔

سابق وزیراعلیٰ اور کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد کو بھارتی عدالت نے سری نگر، بارہ مولا، اننت ناگ اور جموں کے دورے کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن ساتھ ہی شرط عائد کی ہے کہ وہ اپنے دورے میں عوامی خطاب نہیں کریں گے اورنہ کسی قسم کی ریلی نکالیں گے۔


متعلقہ خبریں