العزیزیہ ملز ریفرنس، سزا کے خلاف نوازشریف کی اپیل پر سماعت ملتوی

فوٹو: فائل


اسلام آباد: العزیزیہ ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نوازشریف کی اپیل پر سماعت سات اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف، احسن اقبال، پرویز رشید، راجہ ظفرالحق اور مریم اورنگزیب سمیت دیگر رہنما پیشی کے موقع پر موجود تھے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کیس کے معاملے سے انصاف کی فراہمی کا پورا نظام متاثر ہوا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا کہ جج ارشد ملک کے بیان اور پریس ریلیز کا اپیل پر کیا اثر پڑے گا۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے آپ کو پہلے ہی کافی کچھ بتا دیا ہے کہ اس معاملے پر آپ کو کیا کرنا چاہیے۔

نواز شریف کے وکیل

خواجہ حارث نے جج ارشد ملک کے بیان حلفی اور وضاحتی بیان کی مصدقہ دستاویزات ہمیں دی جائیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے استفسسار کیا کہ اپیل کے لیے آپ کتنا وقت لینا چاہتے ہیں، ٹائم فریم دیں؟۔ جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل پر بحث کرنے میں تین ماہ لگیں گے۔

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کیس میں سپریم کورٹ نے ہمیں نہیں سنا، اس کیس میں ہم سپریم کورٹ سے بھی رجوع کریں گے۔ لہذا ہمیں دو ہفتے کا وقت دیا جائے۔ جس پر عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے موکل کی سزا کالعدم قرار دینے جبکہ نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے عدالت سے سزا میں اضافے کی استدعا کی۔

یاد رہے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کئے تھے۔

لندن فلیٹس ریفرنس میں  سابق وزیر اعظم نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ملزمان ٹھہرایا گیا تھا۔ العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے بیٹے نامزد ملزمان  تھے۔

حسن نواز اور حسین نواز کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ان کے مقدمات علیحدہ کر دیے تھے۔

العزیزیہ میں استغاثہ کے 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے تھے۔ سابق وزیراعظم نے فلیگ شپ میں 140 اور العزیزیہ میں 152 سوالوں کے جواب عدالت میں جمع کرائے تھے۔

بعد ازاں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیاتھا۔

دونوں ریفرنسز میں نواز شریف کے بیٹے حسن اور حسین نواز کو مفرور قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ  گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔


متعلقہ خبریں