’پیپلزپارٹی خورشید شاہ کی گرفتاری کے باوجود احتجاجی سیاست نہیں کرے گی‘



اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی گرفتاری کے باوجود پیپلزپارٹی اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔

پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینئیر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ خورشید شاہ کی گرفتاری پیپلزپارٹی کے لیے ایک دھچکہ ہے اس سے پارٹی کے آزاد رہنماؤں پر دباؤ بڑھے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے بھی یہ صورتحال پریشان کن بن گئی ہے۔پیپلزپارٹی نے اگر احتجاج کرنا ہوتا تو فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد یہ فیصلہ کرلیا ہوتا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نےکہاکہ پیپلزپارٹی اس وقت تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

سینیئر تجز یہ کار ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ نیب نے خورشید شاہ کو اس وقت گرفتار کیا ہے جب کشمیر کانفرنس ہورہی تھی، احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس سے ملک کا ہر معاملہ متاثر نہیں کرنا چاہیے۔

تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا تھا کہ احتساب پر سوال اٹھیں تو وہ متنازعہ ہوجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کرے گی۔

تجزیہ کار طاہر ملک نے کہا کہ حکومتی وزراء گرفتاریوں کی پیشگوئیاں کرتے ہیں اور پھر اس پر گرفتاریاں ہوجاتی ہیں۔ پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمان کا ساتھ نہیں دے گی لیکن اپنی تحریک شروع کرسکتی ہے۔

گرفتاریوں کے باوجود ڈیل کی افواہوں سے متعلق سوال کے جواب میں عامر ضیاء نے کہا کہ دھواں تب ہی اٹھتا ہے جب کہیں آگ ہو، حزب اختلاف کے رہنماؤں میں ریلیف اور اہل اختیار میں حالات پرسکون کرنے کی جستجو موجود ہے۔ عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہی احتساب ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی معاملات ایسے ہی چلائے جاتے ہیں۔ جب تک نوازشریف جیل میں رہیں گے ملک میں عدم استحکام رہے گا اور فیصلہ کن قوتیں ملک میں اس کا خاتمہ چاہتی ہیں۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ ملکی سیاست میں کیا ہورہا ہے اس حوالے سے حقائق سامنے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے این آر اونہ دینے کے اعلان کے بعد صرف پلی بارگین کا ہی راستہ بچتا ہے۔

طاہر ملک نے کہا کہ کچھ نہ کچھ صداقت ہے اسی لیے باربار بیانات آرہے ہیں۔ پاکستان سیاست میں ڈیل دینے والی طاقتیں بیرونی بھی ہیں ۔

امجد شعیب نے کہا کہ ان حالات میں ڈیل یا ڈھیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پلی بارگین کا راستہ موجود ہے لیکن اس سے سیاست کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں فیصلے تاخیر سے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔

میڈیا کورٹس کے قیام سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ حکومت جب بھی میڈیا سے متعلق قوانین نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا مقصد اپنے مقدمات کا دفاع ہوتا ہے۔

عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ اگر اس قانون کا مقصد صحافیوں کو دبانا ہے تو غلط ہے لیکن اگر حکومت اس سے شعبے میں اصلاحات لانا چاہتی ہے تو سب کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔

رضا رومی نے کہا کہ یہ ایک خطرناک قدم ہوگا کہ حکومت اس سے میڈیا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔

طاہرملک نے کہا کہ قوانین کا اطلاق صرف میڈیا پر نہیں بلکہ سب پر ہونا چاہیے جو بھی غلط یا جعلی خبردے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔

امجد شعیب نے کہا کہ قانون آنے سے پہلے ہی اس سے متعلق بدگمان نہیں ہونا چاہیے، میڈیا کو جو اس پر اعتراضات ہوں ان سے متعلق حکومت سے بات کرنی چاہیے، اگر مقدمات کا جلد فیصلہ ہوگا تو اس کا فائدہ میڈیا کو ہی ہوگا کہ اس کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔


متعلقہ خبریں