پنجاب حکومت نے مفاد عامہ سے متعلق 4 نئے آرڈیننس ایوان میں پیش کردیے


لاہور:  پنجاب حکومت نے جمعرات کے روز مفاد عامہ سے متعلق 4 نئے آرڈیننس صوبائی اسمبلی میں پیش کردیے۔

صوبائی اسمبلی کا اجلاس سپیکر چوہدری پرویز الہی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

ایوان میں میانوالی یونیورسٹی آرڈیننس 2019، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ آرڈیننس پنجاب 2019، میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز پنجاب آرڈیننس 2019 اور پروبیشن اینڈ پیرول سروس پنجاب آرڈیننس 2019 ایوان میں پیش کردیے گئے۔

چاروں آرڈیننس متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردئیے گئے۔ سپیکر نے قائمہ کمیٹیوں کو 2 ماہ میں ورکنگ مکمل کرکے رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئےرکن مسلم لیگ ن کے رکن خلیل طاہر سندھو  نے کہا کہ پنجاب حکومت نے وارث میر انڈر پاس کا نام بدل کر کشمیر انڈرپاس رکھ دیا۔ وارث میر کو بھی کشمیر سے خاص لگاؤ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب حکومت سے درخواست کرتے ہیں اس اقدام کو دوبارہ دیکھیں۔ مطالبے پر سپیکر چودھری پرویز الہی کی وزیر قانون راجا بشارت کو معاملے کو دوبارہ دیکھنے کی ہدایت کردی۔ راجا بشارت نے کہا کہ ہم معاملے پر غور کریں گے۔

پنجاب اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیرِ کالونیز فیاض الحسن چوہان نے کالونیز ڈیپارٹمنٹ سے متعلق سوالات کے جواب دیئے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 90,000 کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کالونیز ایکٹ کے تحت 12 سکیمیں دوبارہ شروع کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی سے کالونیز سکیمیں تعطل کا شکار تھیں۔ ان سکیموں کے دوبارہ اجراء سے کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ وفاقی و صوبائی محکموں، رفاہ عامہ کے منصوبوں اور ترقیاتی سکیموں کے لیے زمین دینے کی سکیم تیار کر لی گئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سے منظوری کے بعد گیزیٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اراضی کے استعمال سے متعلق اپوزیشن سے کسی بھی قسم کی مشاورت کے لیے تیار ہیں۔

پنجاب اسمبلی نے دیوانی اور فوجداری تنازعات کے متبادل حل کے لئے متبادل نظام کی  بھی منظوری دے دی۔ قانون تنازعات کا متبادل حل پنجاب 2019 ایوان سے منظور کروالیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مانیکا فیملی کو پروٹوکول نہ دینے پر ڈی پی او کے تبادلے کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع

بل پر گورنر کے دستخط کے بعد دیوانی اور فوجداری تنازعات کے متبادل حل کے لئے نیا نظام قائم ہوگا۔ اس نظام سے دیوانی اور فوجداری دونوں تنازعات کو ثالث، مصالحت یا صلح کار کے ذریعہ حل کیا جا ئےگا۔

بل کے تحت تنازعات کے حل کے متبادل ( اے ڈی آر) سینٹرز قائم کئے جائیں گے۔ اے ڈی آر سینٹرز میں فریقین کی باہمی رضامندی سے آے ڈی آر پرسن تعینات کئے جائیں گے۔

فوجداری یا سول عدالتیں فریقین کی رضامندی کے بعد کیس اے ڈی آر کو بھجوائیں گی۔ اے ڈی آر پرسن بطور ثالث یا صلح کار مقدمے کی سماعت کرے گا۔

دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت عدالت اے ڈی آر کو نوے دن کا وقت دے گی جس میں ترمیم فریقین کی رضامندی سے کی جاسکے گی۔

اے ڈی آر سینٹرز کو مجموعی طور پر 6 ماہ سے زائد وقت نہیں دیا جاۓ گا۔ مقدمے کے دوران اے ڈی آر کی کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات کیس کے فریقین برداشت کریں گے۔

اے ڈی آر کے اخراجات کا تناسب فریقین کی باہمی رضامندی کیساتھ طے کیا جائے گا۔ اے ڈی آر پرسن مقدمے کی کارروائی مکمل کرکے کیس دوبارہ کورٹ کو بھیجے گا۔

اے ڈی آر کی کارروائی کی روشنی میں عدالت مقدمے کی سماعت خود کرے گی۔

مسلم لیگ ن نے اے ڈی آر کے ذریعے مقدمات کی سماعت کو پرائیویٹائزیشن قرار دے دیا۔ مسلم لیگ ن کے رکن وارث کلو نے کہا کہ اب مقدمات کی سماعت بھی پرائیویٹ کردی گئی ہے۔ اس قانون میں اپیل کا حق بھی نہیں رکھا گیا۔

وزیر قانون راجا بشارت  نے وضاحت کردی کہ  یہ قانون فریقین کی رضامندی کی صورت میں لاگو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب فریقین راضی تو اپیل کیسی۔

اجلاس میں حزب اختلاف کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔

اجلاس کا ایجنڈے مکمل ہونے پر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اجلاس جمعہ کی صبح 9  بجے تک ملتوی کر دیا۔


متعلقہ خبریں