پاکستان کی سفارتکاری بری طرح سے ناکام ہو گئی، سابق سفیر


کراچی: سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ کشمیر معاملے پر بھارت نہیں بلکہ پاکستان دباؤ میں ہے اور پاکستان کی سفارتکاری بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہم کشمیر کے معاملے پر پیچھے ہٹے ہیں جبکہ بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ ہماری سفارتکاری ناکام ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو دو باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہو سکتی یہ آپ کی سفارتکاری کو پہلے ہی کمزور کر دیتی ہے۔ دوسری بات لوگوں کو وہاں جانے سے روکا جا رہا ہے۔ آپ بھارت کو پہلے ہی بتا رہے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر نے کہا کہ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جس پر کچھ کہنا نہیں چاہیے اور خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے لیکن ہمارے رہنما سب کچھ کہتے پھر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قائدین کا کاغذ سے دیکھ کر پڑھنا کوئی بری بات نہیں ہے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کو تیاری سے جانا چاہیے۔

عبدالباسط نے کہا کہ اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کا ہم نے بہت شور مچایا لیکن نکلا کچھ بھی نہیں۔ ہیومن رائٹس کونسل میں ہم کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکے قرار داد تو بہت دور کی بات تھی ہم تو کشمیر کے مسئلہ پر بحث بھی نہیں کر اسکے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں جنون کی سی کیفیت ہے اور بھارت کسی قسم کے دباؤ میں نظر نہیں آ رہا تاہم پاکستان ضرور دباؤ میں ہے اور ہماری حکومت کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی کشیدہ صورتحال اور کشمیر کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیر اعظم کی تقریر سنی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور بات چیت کے ذریعے یہ مسئلہ اجاگر ہو گا۔ اس وقت دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو جنگ کے ذریعے حل ہوا ہے اور پہلے جنگ کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر آیا جاتا تھا۔

خورشید محمود قصوری نے کہا کہ پاک بھارت جنگ میں نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ واجپائی بھی آخر اس نتیجہ پر آ گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوں گے اور مسئلہ کشمیر کا بھی واحد حل مذاکرات ہی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر دیگر ملکوں کو جس طرح سے جواب دینا چاہے تھا وہ نہیں ہوا۔ پاکستان کو اپنے سفارتی معاملات میں تیزی لانا چاہے تھی لیکن ہماری طرف سے کوہتائی برتی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں ہم جا کر کشمیر کے معاملے کو اٹھا سکتے تھے وہ ہم نے نہیں کیا۔ ہمارے وزیر خارجہ ملک میں ہی بیٹھ کر بیانات دیتے رہے اور غیر ملکی دورے نہیں کیے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ نے 36 ممالک کا دورہ کیا اور ان کے وزیر اعظم نے بھی 5، 6 ممالک کے دورے کیے۔

زاہد حسین نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کے خطاب سے کچھ نہ کچھ تو بھارت پر دباؤ بڑھے گا اور دنیا کے سامنے ہماری آواز پہنچے گی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی حمایت میں ابھی تک کوئی ملک کھل کر سامنے نہیں آیا لیکن دیگر ممالک کی جانب سے مذمت بھی نہیں کی جا رہی۔ کرفیو اٹھنے کے بعد کشمیریوں کی مزاحمت ہی بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔


متعلقہ خبریں