افغان طالبان کا دورہ چین: اعلیٰ حکام سے گفت و شنید


کابل: افغان طالبان کے ایک نمائندہ وفد نے چین میں اعلیٰ حکام سے ملاقات کی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل پر بات چیت کی گئی ہے۔ ملاقات چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہوئی۔

یہ انکشاف افغان طالبان کے قطر میں ترجمان سہیل شاہین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کیا ہے۔

سہیل شاہین نے اپنا پیغام اس ملاقات سے کچھ دیر قبل جاری کیا جو امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کی افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہوئی ۔ زلمے خلیل زاد افغان مفاہمتی عمل میں امریکہ کے خصوصی نمائندے ہیں۔

واشنگٹن کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا غیرمنصفانہ ہے، عمران خان

افغان طالبان کے ساتھ گزشتہ ایک سال سے وہی دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کررہے تھے۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق وفد نے بیجنگ میں چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ڈینگ زی جون سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 

سہیل شاہین نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ امریکہ طالبان سمجھوتہ افغان مسئلے کے پر امن حل کے لیے ایک اچھا فریم ورک ہے اور وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔

 پر امن ہمسائے کے ویژن پر عملدرآمد کیلیے افغانستان میں امن ضروری ہے، عمران خان

طالبان ترجمان کے مطابق افغان طالبان وفد کی قیادت کرنے والے ملا برادر نے کہا کہ بات چیت کے نتیجے میں ہم ایک جامع معاہدے تک پہنچ گئے تھے لیکن اگر اب امریکہ کے صدر اپنی بات پر قائم نہیں رہتے ہیں تو افغانستان میں ہونے والی کسی بھی قسم کی خونریزی کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔

افغان طالبان نے چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ ایک سال سے دوحہ، قطر میں جاری امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرچکے ہیں۔

دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قبول کریں گے ، افغان طالبان

دلچسپ امر ہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ دنوں بھی چین اور روس کے دورے کیے تھے جس میں انہوں نے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پائے گا تو اس پر بطور عالمی ضامن پاکستان، چین اور روس دستخط کریں گے۔

چین کی جانب سے گزشتہ دنوں کیے جانے والے اس اعلان نے بھی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا کہ وہ اپنی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ایران میں کرنے جا رہا ہے۔ چین کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب خلیج میں موجود تناؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور ایران پر عائد امریکی پابندیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

 


متعلقہ خبریں