سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاالحق قاسمی کی تقرری پر فیصلہ محفوظ


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) عطاالحق قاسمی کی تقرری پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

پیر کو عدالت عطمی میں ایم ڈی پی ٹی وی کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سابق وفاقی وزیر پرویز رشید کو وکیل کرنے کا موقع دیا گیا تھا تاہم انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی خدمات پر ہی اکتفا کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سابق ایم ڈی پی ٹی وی کو دیئے گئے 27 کروڑ روپے کے اخراجات کا جواز پیش کرنا ہوگا۔ اخراجات کس مد میں ہوئے اس کا آڈٹ کروانا ہوگا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عطا الحق قاسمی کے عہدے پر اٹھنے والے اخراجات کا آڈٹ کروالیتے ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران آڈٹ کے حدود و قیود طے کرلیں اور آڈٹ کروانے کا ٹرم آف ریفرنس دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر معاملہ نیب کو نہیں بھیجنا ہے تو ہم خود معاملے کو دیکھ لیتے ہیں اور آڈیٹر اکاؤنٹ سے آڈٹ کروالیتے ہیں۔ آڈیٹر نے کہہ دینا ہے کہ اخراجات درست نہیں ہیں۔ عطاالحق قاسمی پر اٹھنے والے اخراجات تقرری کے ذمہ داران واپس کریں۔

چیف جسٹس نے پرویز رشید سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وکیل کر لیا ہے؟

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی میرے وکیل ہوں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے مؤقف اختیار کیا کہ چیئرمین پی ٹی وی کے لیے عمر کی حد 65 سال تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی وی کا سربراہ ایم ڈی ہوتا ہے یا چیئرمین ہوتا ہے؟

رانا وقار کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی کا سربراہ ایم ڈی ہوتا ہے۔ وفاقی کابینہ نے وزارت اطلاعات کے ذیلی اداروں کے سربراہان کے لئےعمر کی حد میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔ عطاالحق قاسمی کانام اس وقت کے وفاقی پرویز رشید نے تجویز کیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی وزیر کا جو دل چاہے گا کرے گا۔ کیاقانون اور شفافیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔  اگر یہ تقرری شفافیت کے مطابق نہیں توکیا آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوگا؟

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگرہم تقرری کوغیرقانونی قرار دے دیں تو کیا یہ بددیانتی نہیں ہوگی۔  ریاست کواس انداز سے چلانے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا ہے۔

رانا وقار نے کہا کہ اگرتقرری میں بے ایمانی ثابت ہوجائے تو عدالت آرٹیکل 62 ون ایف لگا سکتی ہے۔ سمری کے مطابق پی ٹی وی کے لیے پروفیشنل لوگوں کی خدمات حاصل کرنی تھیں۔ سمری کی منظوری کے بعد افتخارعارف کو اکادمی ادبیات کا چئیرمین لگایا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بورڈ کے انتخاب کے بغیر عطاالحق قاسمی چیئرمین کیسے بن گئے؟ پرویز رشید نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے خیال سے بورڈ کی میٹنگ ہوئی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے شرمندگی کا اظہار کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ شرمندہ وہ ہوں جنہیوں نے تعیناتی کی ہے، ہمیں مطمئن کریں کہ بورڈ کے چیئرمین کی تقرری کے لیے میٹنگ ہوئی تھی۔ اگر میٹنگ نہیں ہوئی تو تقرری غیر قانونی ہوگی۔

وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کو روسٹرم پر بلا کر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کون سے قوائد کے مطابق وزیراعظم نے تقرری کی منظوری دی تھی؟

چیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی فائل ہے جس سے ثابت ہوکہ وزیراعظم نے منظوری دی تھی۔

فواد حسن فواد نے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے زبانی احکامات دیئے تھے اور میں ںے اس پر عمل کیا تھا۔ دو عشروں سے یہی پریکٹس ہے کہ پرنسپل سیکریٹری  زبانی احکامات پر عملدرآمد کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں اور کون سے قانون میں لکھا ہے کہ آپ زبانی احکامات پر عمل کریں گے۔

فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور گورنر ایسی پوسٹس ہیں جہاں زبانی احکامات دیئے جاتے ہیں۔ ایم ڈی پی ٹی وی کی تقرری میں وزیراعظم نے نوٹنگ (تحریری ہدایات) نہیں دی تھی۔

چیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ان کاموں پر کیوں نہ آپ کا کیس نیب کو بھیج دیا جائے۔ بظاہر آپ ہی اس کے ذمہ دار لگتے ہیں۔ ہم کچھ بولیں تو کہتے ہیں کہ بیوروکریٹ کی بے عزتی کرتے ہیں۔ عدالت کی جانب سے مقدمے کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں