السلام علیکم: اللہ کے فضل سے سلامت ہوں، ڈاکٹر عبدالقدیر کو تردید کرنا پڑگئی

السلام علیکم: اللہ کے فضل سے سلامت ہوں، ڈاکٹر عبدالقدیر کو تردید کرنا پڑگئی

اسلام آباد: پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر ہونے والی افواہ کے بعد اپنے انتقال کی ازخود تردید کرنا پڑ گئی۔ فخر پاکستان نے تردید کے لیے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا استعمال کیا ہے۔

سوشل میڈیا نے عابدعلی کے اہل خانہ کو روحانی و ذہنی کرب میں مبتلا کردیا

افسوسناک امر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ طریقہ اپنا لیا گیا ہے کہ کسی کے بھی انتقال کی جھوٹی خبر شیئر کردی جاتی ہے اور لوگ بھی اس کی تصدیق کے بنا شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ نتیجتاً متعلقہ شخص کو ازخو اور یا پھر اس کے گھروالوں کو افواہوں کی تردید کرنا پڑتی ہے لیکن ایسا کرنے والے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے ہیں کہ کسی کے انتقال کی جھوٹی خبر سے ایک گھر اور خاندان کس ذہنی و قلبی اذیت اور تکلیف سے گزرے گا۔

ہم نیوز کے مطابق صحت کی خرابی کے باعث اسپتال میں زیرعلاج ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی جھوٹی افواہیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زیر گردش ہیں۔ افواہوں کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر انہوں نے از خود اپنے انتقل کی تردید کی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ میرے پاکستانیوں: السلام وعلیکم! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں سلامت ہوں. میرے مرنے کی خبریں فیس بک پر میرے اور ملک دشمن عناصر لگا رہے ہیں۔

ممتاز ٹی وی آرٹسٹ ذہین طاہرہ کے بیٹے کو بھی ’تردید‘ کرنا پڑگئی

ایٹمی سائنسدان کی جانب سے اپنے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں کے بعد فیس بک صارفین نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی ہے۔ صارفین نے یہ دعا بھی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ملک دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شاندار خدمات پر انہیں 14 اگست 1996 کو میں صدر پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا تھا جب کہ 1989 میں انہیں ہلال امتیاز دیا گیا تھا۔

چوہدری شجاعت حسین کی صحت سے متعلق خبریں محض افواہ

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اب تک چودھری شجاعت حسین، ذہین طاہرہ، منور رانا، استاد حامد علی خان، اداکار عابد علی، عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی اور مرزا شاہی سمیت دیگرنے ازخود اور یا پھر ان کے اہل خانہ کو جھوٹی افواہوں کی تردید کرنا پڑی ہیں۔ یقیناً! ایسا کرنا ان کے لیے سوہان روح ہی تھا۔


متعلقہ خبریں