مسئلہ کشمیر پر ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، وزیراعظم



نیویارک/نیویارک: وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کشمیر میں بحران کا آغاز ہوچکا ہے اور دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔

اقوام متحدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہمیں خوف ہے کہ بھارت مقبوضہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرفیو ہٹانے سے حالات مزید خراب ہوں گے اور جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی کوشش کی جائے گی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا لیکن جب ہم نے ثبوت مانگے تو ہم پر حملہ کیا گیا جس کا پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت گزشتہ چھ سال سے انتہا پسندوں کی حکومت ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’جب میں نے حکومت سنبھالی تو مودی کو مذکارات کی دعوت دی تھی لیکن اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا‘۔

پریس کانفرنس کا کہنا تھا بھارت چھ سال میں بہت تبدیل ہوچکا ہے، اب وقت ہے کہ عالمی رہنما اپنا کردار ادا کریں بصورت دیگر دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو بھی کشمیر میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی۔

پاکستان کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 50 دن سے 80 لاکھ کشمیریوں کو گھروں میں قید کر رکھا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان اور ٹرمپ نے ایرانی صدر سے بات کرنے کا کہا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ٹرمپ کے بعد صدر روحانی سے بات ہوئی تھی اور میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہم امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال کرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

کیا مودی کے ساتھ ملاقات ہوسکتی ہے؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست سے پہلے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن کو جواب نہیں ملا، اب اس وقت تک بات نہیں ہو سکتی جب تک کشمیر سے کرفیو ہٹنے اور آرٹیکل 370 کی دوبارہ بحالی تک ایسا نہیں ہوسکتا۔

ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا اگر کشمیر پر کچھ کرنا ہے تو سیکیورٹی کونسل کے لیے یہ مناسب وقت ہے کیوں کہ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ عالمی برادری سے مایوس ہیں کیوں کہ اگر یورپ کے کسی ملک میں ایسا ہوتا تو کیا ایسا رد عمل دیا جاتا؟ ان کا کہنا تھا اگر آٹھ یہودیوں کیساتھ بھی ایسا ہوتا تو آپ دنیا کا رد عمل دیکھتے، لیکن کشمیر میں مسلمان ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 90 لاکھ فوج ہے جو مسلمانوں پر ظلم کرنے کے لیے ہے، کہاں ہے قانون، کہاں ہے دنیا، کہاں ہے عالمی رہنما۔

عمران خان کا کہنا تھا میں ابھی دنیا کو بتا رہا ہوں کہ کرفیو اٹھنے کے بعد وہاں شدید رد عمل آئے گا جس کے بھیانک اثرات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 80 لاکھ انسانوں کیساتھ جانوروں سے برا سلوک کیا جا رہا ہے لیکن عالمی برادری معاشی مارکیٹ کی طرف دیکھ رہی، میں عالمی برادری کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ بہت غلط اندازہ ہے۔

کیا ترکی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مدد کرسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ کم سے کم بھارت کو کرفیو ہٹانے کا کہیں۔

جنرل اسمبلی کے بعد او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے گا کیوں کہ مسلم ممالک کی وجہ سے کشمیر کے مسلمان ظلم برداشت کر رہے ہیں اور کشمیریوں پر ظلم بھی مسلم ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

القاعدہ کو ٹریننگ دینے کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اعلان جہاد کے بعد جب عرب ممالک کے لوگ آئے تو پاکستان نے امریکہ کی مدد سے ان کو ٹریننگ دی۔

عمران خان نے کہا کہ 2001 میں یہی جہادی دہشت گرد بن گئے اور پھر ہمیں ان کیخلاف لڑنا پڑا جس سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ عقل مند لوگ مستقبل کا سوچتے ہیں اور میں دنیا کو بتا رہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا تو یہ غلط ہے۔

مودی نسل کشی کی کوشش کر رہا ہے اور اسی میں یورپی ممالک کو کہتا ہوں کے اپنے نمائندے بھیج کر ٹھیک صورتحال کا پتا چلائیں۔

اگر عالمی برادری نے مدد نہ کی تو کیا کریں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کیخلاف جنگ شروع نہیں کریں گے اس کے علاوہ تمام راستے اختیار کیے جائیں گے۔


متعلقہ خبریں