آزادی مارچ: ’احتجاج کی تاریخ پر ابھی اتفاق نہیں ہوا‘



اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ان کی پارٹی ملک میں مذہبی انتشار پھیلانے کے حق میں نہیں اور آزادی مارچ کے حوالے سے تاحال تین باتوں پر اتفاق ہوا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام’ندیم ملک لائیو‘ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے مطالبات میں آئین کی حفاظت اور اس کی بالادستی، حکومت کی رخصتی اور 90 دن میں نئے انتخابات شامل ہیں۔

ہم نے فضل الرحمان کے کو کچھ استفسارات کیے ہیں کہ ایک سیاسی مطالبات کی فہرست ہونی چاہیے، ن لیگ نہیں چاہتی کہ مذہبی انتشار پھیلے کیوں کہ ہم  فیض آباد کا دھرنا بھگت چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کی تاریخ پر بھی اختلاف ہے کیوں کہ اس وقت راولپنڈی اور اسلام آباد میں ڈینگی پھیلا ہوا ہے جو کہ نومبر میں ختم ہوجائے گا، دوسری بات یہ کہ دس نومبر کو 12 ربیع الاول بھی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ نومبر کے آخری ہفتے کی کوئی تاریخ مقرر کی جائے۔

احسن اقبال نے کہا’مولانا چاہتے ہیں کہ اکتوبر کے آخر میں احتجاج کیا جائے اور اس حوالے سے ن لیگ نے گزارش کی ہے کہ تاریخ پر نظر ثانی کی جائے‘۔

ملک میں احتساب کے سوال پر احسن اقبال نے جواب دیا کہ سیاست دانوں کی طرح سابق ججز کا بھی احتساب ہونا چاہیے، ثاقب نثار نے ڈیم اور کنڈنی اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ادارے کو نقصان پہنچایا لیکن اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ہر مثبت اقدام پر حکومت کیساتھ ہے کیوں کہ نیب کا قانون اتفاق رائے سے ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔

امریکہ میں عمران خان کے بیانات پر رد عمل دیتے ہوئے ن لیگی رہنما نے کہا کہ ملکی کے لیے سیکیورٹی رسک بننے سے بہتر ہے آپ کاغذ سے دیکھ  کر پڑھ لیں۔

قائد ایوان سینیٹ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ایوان کو صرف اپنی قیادت بچانے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور مثبت قانون سازی کے وقت عملی تعاون نہیں کرتی۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ن لیگ اکتوبر میں احتجاج نہیں کرنا چاہتی کیوں کہ ان کے لیے مچھر ہی کافی ہے۔

ٹرمپ کے بیانات کو کتنا سنجیدہ لیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایسا ہی چلتا ہے، آپ کسی ایک کی خاطر دوسرے کی دشمنی مول نہیں لے سکتے۔

شبلی فراز نے فردوس اعوان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراطلاعات کو معاملے کا صحیح ادراک نہیں تھا۔

قائد ایوان سینیٹ نے کہا کہ ماضی میں افتخار چوہدری اور ثاقب نثار نے ملک کے کئی اداروں کو بہت نقصان پہنچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والوں میں گڑ بڑ ہوگی تو اس کے اثرات معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔


متعلقہ خبریں