عمران خان: واشنگٹن، ریاض اور تہران کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکیں گے؟

عمران خان: واشنگٹن، ریاض اور تہران کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکیں گے؟

اسلام آباد: دنیائے کرکٹ میں عالمی شہرت حاصل کرنے اور سماجی میدان میں اپنا نام کا سکہ جمانے کے بعد عالمی سفارتکاری میں بھی وزیراعظم عمران خان نے اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ بھارت کے پاکستان مخالف اور انتہا پسند ہندو میڈیا کو اپنے وزیراعظم کے مقابلے میں پاکستانی وزیراعظم کی عالمی سطح پر ہونے والی پذیرائی ہضم نہ ہوئی تو وہ تسلسل کے ساتھ عمران خان پر مختلف حوالوں سے تنقید کرنے میں مصروف ہوگیا لیکن اس کی نسبت سنجیدہ ذرائع ابلاغ نے اپنے حکمرانوں کو پاکستانی وزیراعظم سے سبق حاصل کرنے کا بھی مشورہ دینا شروع کردیا۔

نہلے پہ دہلا: عمران خان اور ٹرمپ نے ایک دوسرے کو ٹاسک سونپ دیا

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر، افغانستان میں قیام امن، امریکہ ایران اور سعودی عرب ایران تنازعات سب سے زیادہ اہم موضوعات سمجھے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شریک عالمی رہنماؤں کی زیادہ تر گفتگو انہی کے اطراف دکھائی دے رہی ہے۔

اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور عالمی رہنماؤں کی سائیڈ لائن پر بھی ایک دوسرے سے جو بات چیت ہورہی ہے اس کا بھی زیادہ تر حصہ درج بالا موضوعات کا ہی احاطہ کیے ہوئے ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت عمران خان کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جب انہیں ون آن ون ہونے والی ملاقات میں یہ ذمہ داری تفویض کی کہ وہ امریکہ و ایران تنازعہ حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں تو وہیں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ وہ ایران و سعودی عرب کے درمیان موجود تناؤ کم کرانے کے لیے بھی بات چیت کریں۔

پاکستانی وزیراعظم نے اسی ملاقات میں امریکی صدر پہ واضح کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں اپنا کردارادا کریں اور ساتھ ہی باور کرایا کہ بھارت صرف امریکہ کی سنے گا۔ اس موقع پر انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز بھارتی مظالم سے بھی آگاہ کیا تھا۔ سیاسی مبصرین نے اس ملاقات کو نہلے پہ دھلا قرار دیا تھا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عمران کو جب ٹاسک سونپا گیا تو فریقین کے درمیان سرد مہری کی برف معمولی سی پگھلی ضرور ہے جس کی وجہ سے سخت حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگے ہیں۔

مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، سعودی ولی عہد

سفارتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی وزیراعظم عمران خان سے خطے میں پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرانے میں کردار ادا کرنے کی بابت بات چیت کی تھی۔ یہ بات چیت اس وقت ہوئی تھی جب وزیراعظم امریکہ آمد سے قبل سعودی عرب گئے تھے جہاں شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی ون آن ون ہونے والی ملاقات کے بعد ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات کی تھی جس میں باہمی دلچسپی کے امور سمیت خطے کی صورتحال پر گفت و شنید کی گئی تھی۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کے روایتی طور پرسعودی عرب کے ساتھ زیادہ گہرے مراسم ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصوں کے دوران مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان نے جو غیر جانبدارانہ رویہ اپنایا ہے اس کی وجہ سے ایران کے ساتھ موجود برادرانہ تعلقات میں بھی مزید بہتری آئی ہے۔

عمران خان کی رجب طیب ایردوان اور حسن روحانی سے ملاقاتیں

پاکستان نے یمن کے معاملے پراپنی غیر جابنداری برقرار رکھی ہے اور خلیج میں پائی جانے والی تناؤ کی کیفیت میں بھی کسی پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالا ہے جس کی وجہ سے بیک وقت ریاض اور تہران میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جب کہ واشنگٹن میں موجود ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل وہ نہ صرف افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو یقینی بنالیں، ایران کے ساتھ موجود تنازعہ کو ختم نہ کرسکیں تو اس کی شدت میں کمی لے آئیں اور دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں پاکستان و بھارت کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کرائیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا راستہ ماضی میں بھی اسلام آباد سے ہو کر گزرا تھا اور آئندہ بھی اس کی اہمیت برقرار رہے گی جس کا واشنگٹن کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے درمیان موجود تنازعہ کے طویل تاریخ ہے تو یہ کسی طورممکن نہیں ہے کہ دونوں فوراً ایک میز پہ بیٹھ جائیں لیکن پاکستان ان کے درمیان موجود تناؤ کی شدت ضرور کم کراسکتا ہے جو خطے میں امن و سکون اور استحکام کا باعث ہوگا۔

سیاسی مبصرین یقین رکھتے ہیں کہ فی الوقت امریکہ، سعودی عرب اور ایران اس حق میں نہیں ہیں کہ کسی بھی قسم کی جنگ خطے پر مسلط کی جائے تو ایسی صورتحال میں پاکستان انتہائی مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماضی میں خطے پر حکمرانی کرنے کی تاریخ رکھنے والے برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن واضح کرچکے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان نہیں ہے البتہ اس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔

القاعدہ اور داعش کو امریکہ نے پیدا کیا، ایرانی صدر

یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ خطے میں موجود تناؤ کو کم کرنے اور بڑھتی کشیدگی کا خاتمہ کرانے کے لیے عالمی طاقتوں نے فریقین کے مابین بات چیت کرنے کی ذمہ داری جہاں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو تفویض کی ہے تو وہیں عراقی وزیراعظم عادل المہدی کو بھی اسی ضمن میں ٹاسک دیا گیا ہے۔

سعودی عرب کی  خبررساں ایجنسی ’ ایس پی اے‘ کے مطابق گزشتہ روز عراق کے وزیراعظم نے سعودی عرب کے فرماں روا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان سے ملاقات کی اور بقیق و خریض میں ارامکو کمپنی کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی سخت مذمت کی۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر بات چیت ہوئی اوردو طرفہ امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔

سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے میزائل اور ڈرنز حملوں کے متعلق واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ ان کے لیے عراق کی سرزمین استعمال کی گئی تھی۔

برطانیہ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان مسترد کردیا

خبررساں ایجنسی کے مطابق ملاقات میں مکہ معظمہ کے گورنر اور شاہ سلمان کے خصوصی مشیر شہزادہ خالد الفیصل بن عبد العزیز ، وزیر داخلہ شہزادہ عبد العزیز بن سعود بن نائف بن عبد العزیز ، قومی سلامتی کے مشیر موسیٰ بن محمد العیبان ، وزیر تجارت و سرمایہ کاری ، وزیر بلدیات و دیہی امور ماجد بن عبداللہ القصبی اورعراق میں سعودی عرب کے سفیرعبد العزیز بن خالد الشمری بھی موجود تھے۔

عراقی وزیراعظم کی مدد ان کے وفد میں شامل نائب وزیراعظم اور وزیر پٹرولیم ثامر الغضبان، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری محمد ھاشم ، نیشنل انٹلیجنس سروس کے چیف مصطفی الکاظمی اور جمہوریہ عراق کے سعودی عرب میں قونصل جنرل احمد حسن زہیر سمیت دیگر نے کی تھی۔

سیاسی مبصرین کے نزدیک پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا کردار اس وقت عالمی سفارتکاری کے میدان میں خاصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے کیونکہ واشنگٹن، ریاض اور تہران کے درمیان وہ پل بن رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارتی ذرائع ابلاغ بطور خاص انہیں ہدف تنقید بنا رہا ہے حالانکہ ماضی میں وہ اپنی شخصیت اور دنیائے کرکٹ کے روشن ستارے کی حیثیت سے وہاں بھی نہایت مقبول رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلاشبہ! عمران خان اپنی زندگی کے مشکل ترین امتحان سے گزررہے ہیں کیونکہ عالمی سفارتکاری ان کے لیے نیا میدان ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ سرخرو گزرتے ہیں یا ۔۔۔؟


متعلقہ خبریں