مشال خان قتل، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس نمٹادیا


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کے قتل پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو نمٹا دیا۔ 

پیر کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سپریم کورٹ کے مطابق ملزم کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہوچکی ہے، جس کے بعد ازخود نوٹس کو مزید چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبائی حکومت نے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہین رسالت کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان کے واقعے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ جس کی پہلی سماعت 18 مارچ کو ہوئی تھی۔

مشال خان قتل کا واقعہ۔۔

مشال کے قتل کا واقعہ 13 اپریل 2017 کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کیمپس میں پیش آیا تھا۔

طلبا نے توہین عدالت کا الزام لگا کرصوابی کے رہائشی، ماس کمیونیکیشن کے طالبعلم مشال خان کو بدترین تشدد اور فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

مشال قتل کیس میں نامزد 60 میں سے 57 ملزمان کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ جن کے خلاف مشال خان کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہری پور جیل میں چلایا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں سال سات فروری کو ملزمان کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے مشال خان کے قتل میں ملوث گرفتار 57 طلبا میں سے 31 کو سزا سنائی اور 26 کو بری کردیا گیا جب کہ تین ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔

ملزمان میں شامل مرکزی ملزم عمران علی کو سزائے موت سنائی گئی، پانچ ملزمان کو 25 سال قید جب کہ 25 ملزمان کو چار سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ 

مشال خان کی والد کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے مقدمہ ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمے کی سماعت ہری پور جیل میں کی تھی۔


متعلقہ خبریں